Freitag, 15. Juli 2011

سوئے حجاز پر چند تاثرات

سوئے حجاز پر چند تاثرات


علامہ شارق جمال۔ناگ پور ،انڈیا
ان تمام مذکورہ زیارتوں کے حال کو ،سفر میں دیکھے ہوئے تمام محترم مقامات کو تفصیل سے حیدر قریشی صاحب نے قرطاس کے حوالے کیا ہے۔ساتھ ہی جگہ جگہ اپنے انداز میں ان پر تبصرہ بھی فرمایا ہے اور قرآن حکیم کے اپنے وسیع ترین مطالعے کو بھی سامنے رکھ کر متعلقہ آیتوں کو بھی ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ساتھ ہی اپنے نظریات کو بھی بر سبیلِ تذکرہ بیان میں لے آیا گیا ہے۔
لیکن پھر بھی ان سے متعلق تحریر کیا ہے کہ:’’سوئے حجاز۔۔۔میں میرے نظریات اور تصوّرات جس انداز میں آئے ہیں،ان سے اتفاق کرنا قطعاََ ضروری نہیں ہے‘‘
یہ سفر نامہ ہر سفر حجاز کرنے والے کے لئے ایک رہبر کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں تمام ضروری باتیں،ارکان،دعاؤں کے مقام جو عمرے سے متعلق ہیں احاطۂ تحریر میں آگئی ہیں۔کن ارکان کو کیسے ادا کرنا ہے؟کہاں کہاں نفل نمازیں پڑھنا ہے؟کہاں کہاں دعا مانگنا ہے؟کس طرح مانگنا ہے؟تفصیل کے ساتھ جنابِ حیدر قریشی نے تحریر فرما یا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر حمیدی۔اسلام آباد،پاکستان
کچھ باتیں اس سفرنامے میں مجھے بہت نمایاں دکھائی دیں جن کا مختصر اظہار درج ذیل ہے:
1۔ یہ سفرنامے حیدر قریشی کے ظاہری ہی نہیں باطنی اور روحانی سفرنامے بھی ہیں۔
2۔ ان سفرناموں میں ان کیفیات کا والہانہ اظہار ہے جو اس دوران حیدرقریشی صاحب کو محسوس ہوتی رہیں۔
3۔ ان سفرناموں میں ان مقامات کے تاریخی پس منظر بھی بیان کیے گئے ہیں جو مصنف کے مشاہدے میں آئے یا جہاں جہاں سے وہ عمرہ اور حج کی ادائیگی کے دوران گزرتے رہے۔ یہ تاریخی پس منظر محض مذہبی نقطۂ نظر ہی نہیں رکھتے بلکہ تاریخی اور جغرافیائی حوالے بھی بنتے دکھائی دیتے ہیں جن کی اس لیے بھی خاص اہمیت ہے کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہیں وہ بھی علمی سطح پر ان معلومات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ یوں یہ سفرنامہ محض مذہبی حیثیت ہی نہیں رکھتا جو ہمارے نزدیک نہایت قابلِ قدر ہے بلکہ ایک تاریخی اور علمی حیثیت بھی رکھتا ہے جو ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو مذہبِ اسلام سے تعلق نہیں رکھتے جنہیں مذہب سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔
4۔ اس سفرنامے میں ان مشکلات کا بھی ذکر ہے جو دورانِ حج یا عمرہ کے دوران حجاج کرام کو یا زائرین کو پیش آتی ہیں یا پیش آسکتی ہیں۔ اس سفرنامے کے ذریعے وہ ان متوقع مشکلات کی پیش بندی کا اہتمام بھی کر سکتے ہیں۔
5۔ اس سفرنامے میں مقامی انتظامیہ کی ان غفلتوں کا بھی ذکر ہے جن کے باعث زائرین کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں ان کمپنیوں کے رویّوں کا بھی ذکر ملتا ہے جنہیں دورانِ حج مختلف طرح کے کام تفویض کیے جاتے ہیں اس سفرنامے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض کام خوش اسلوبی سے بھی سرانجام دیئے جاتے ہیں اور بعض غفلت کے باعث حجاج کرام کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔
6۔ اس سفرنامے سے زائرین کورہنمائی بھی ملتی ہے کہ ایسا سفر آغاز کرنے سے قبل انہیں کن کن باتوں کو اورکن کن التزامات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ یوں یہ سفرنامہ ایک مخصوص افادیت کا حامل بن جاتا ہے جس کا مطالعہ زائرین کے لیے بیحد مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
-7 ۔ تاریخی اعتبار سے یہ سفرنامہ معلومات کا خزانہ ہے جس کے گہرے مطالعے سے وہاں کے اہم مقامات کے بارے میں قیمتی تاریخی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔
8۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مقدس مقامات اور ماحول میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان سے بخوبی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ان میں بعض تبدیلیاں تکلیف دہ بھی ہیں۔
9۔ یہ سفرنامہ ایک روحانی سیر ہے مگراسلوب اور ناقدانہ نظر ایک باشعور ادیب کے ہیں۔ یہ ادبی زبان میں لکھا ہوا روحانی سفر نامہ ہے جس میں وہاں کی انتظامی خامیوں پر تنقید بھی کی گئی ہے جو حجاج کرام کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
10۔ اس سفرنامے میں موضوعات کی رنگارنگی اور اندازِ بیان کا بہت لطف شامل ہیں۔
11۔ یہ سفرنامہ اپنے اندر جہاں تاریخی حقائق رکھتا ہے وہاں جذبوں کے ایسے مناظر بھی ملتے ہیں جو پڑھنے والے کواپنی رو میں بہالے جاتے ہیں اور پڑھنے والا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے وہ خود بھی حیدر قریشی کے ساتھ اس مبارک سفر میں شریک ہے۔
12۔ یہ سفرنامہ اپنے صفحات کے لحاظ سے طویل نہیں مگر معنی،معلومات، کیفیات، تاریخی تعارفات اور پیش آمدہ مسائل و معاملات نیز مشاہدات کے باعث بہت بسیط ہے۔ دیوانِ غالبؔ کی طرح جو حجم میں قلیل ہے مگر معنی میں طویل۔
13۔ میری رائے میں حیدر قریشی کایہ سفرنامہ اردو میں لکھے ہوئے حج کے سفرناموں میں ایک بہت نمایاں اور ممتاز مقام کا حامل ہے اور سفرناموں کے ضمن میں ایک قیمتی اضافہ جو آئندہ چل کر بہت سے نقطہ ہائے نظر سے تاریخی حوالہ جات کا کام دے گا۔
14۔ یہ سفرنامہ بے شک بڑی عقیدت سے لکھا گیا ہے جس میں مصنف کے انتہائی والہانہ عقیدتی جذبات کا اظہار ہوتا ہے۔۔۔ مگر مصنّف بنیادی طور پر ادیب اورشاعر ہے۔ اس لیے اس نے یہ سفرنامہ کھلی آنکھوں سے اپنے ماحول کودیکھ کر ایک ادیب کے ذہن سے سوچ کر ایک شاعر کے قلم سے لکھا ہے۔ جسے پڑھ کر بار بار شاعرانہ شعور کا احساس ہوتا ہے۔ مصنف نے اپنی عقیدت کو اپنی ذات تک محدود رکھا ہے اور تاریخی واقعات اور مشاہدات کو قطعاً علمی اور فکری تجربات کے ساتھ قلم بند کیا ہے۔ یہ گویا قعرِدریا میں اتر کر دامن خشک رکھنے والی بات ہے جس کا حافظ نے ذکر کیا تھا۔
15۔ حیدر قریشی کا سفر نامہ ’’سوئے حجاز‘‘ پڑھتے ہوئے اس موضوع کا کوئی بھی سفرنامہ یاد نہیں آتا۔ اس کی وجہ حیدر قریشی کا منفرد اندازِ فکر اور منفرد اسلوبِ تحریر ہے۔ حیدر قریشی کا یہ امتیاز بہت نمایاں ہے کہ وہ قاری کی تمام تر توجہ اپنی جانب اس طور باندھ رکھتا ہے کہ پڑھنے والے کو کہیں اِدھر اُدھر کی نہ تو فرصت ملتی ہے اور نہ ہی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ حیدر قریشی کے تخلیقی سحر میں سر تا پا شرابور ہوتا چلا جاتا ہے۔
مَیں اپنے عزیز دوست کواس شاہکار سفرنامے پر مبارکباد دیتا ہوں۔**
اکبر حمیدی کے مضمون حیدر قریشی سوئے حجاز کا ایک حصہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتخار امام صدیقی۔ممبئی،انڈیا
سوئے حجاز میرے لئے ایک انمول تحفہ ہے۔یوں لگاگویا میں آپ دونوں کے ساتھ سفر کر رہا ہوں۔مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے سارے متبرک مناظر اور شب و روز مجھے یاد آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نذر خلیق۔اسلام آباد،پاکستان
سوئے حجاز کی فکری اور ادبی سطح کے علاوہ بھی اورکئی سطحیں ہیں جن کا اس مختصر مضمون میں احاطہ کرنا مشکل ہے تاہم یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حیدر قریشی کا یہ سفرنامہ عصر حاضر کے بیشتر سفرناموں میں منفرد مقام رکھتا ہے حیدر قریشی اپنی دیگر تخلیقات کی طرح اس سفر نامہ میں بھی اپنے تخلیقی جوہر دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور یہ بات طے ہو چکی ہے کہ حیدر قریشی عصرِ حاضر کے چند منفرد اور پہلی صف کے تخلیق کار ہیں اور ان کے لیے کسی بھی صنفِ ادب میں لکھنا کوئی مشکل بات نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مولانا مفتی خالد محمود ۔کراچی،پاکستان
Your SAFARNAMA is very useful and valuable.I read in 1 sitting.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونس خان۔سرگودھا،پاکستان
پارسل کی ڈوری کیا کھولی کہ محبت کی دوری سے بندھ گیا۔سوئے حجاز فوراََ پڑھنا شروع کی۔دو نشستوں میں عمرے کا سفر نامہ ختم کیا ایک افطاری سے پہلے اور دوسری افطاری کے بعد۔آج حج کا سفر نامہ پڑھ کے ختم کیا ہے اور نیٹ پر آگیا ہوں۔سارا سفر نامہ دردمندی اور عقیدت سے لکھا گیا ہے۔بلا وجہ کسی کو جذباتی نہیں کیا۔بات سادگی سے کہہ دی ہے۔سفر نامے کو انتہائی مختصر رکھا گیا ہے،شاید یہی اس کی خوبصورتی بھی ہے کہ بات کو زیادہ پھیلایا نہیں گیا۔ایک بات زیادہ خوبصورت لگی کہ سفر نامہ ہَیٹرس ہائم سے شروع ہوتا ہے،پاکستان سے نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منزہ یاسمین۔بھاولپور،پاکستان
سفرنامہ ’’سوئے حجاز‘‘ جہاں حیدر قریشی کے احساسات اور خیالات کی بہترین ترجمانی کرتاہے ، وہاں اپنے قارئین کے لیے نہایت اہم تاریخی اور مذہبی معلومات کا خزینہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔
حیدر قریشی نے اپنے سفرنامہ ’’سوئے حجاز‘‘ میں جگہ جگہ مختلف پیغمبروں اور نبیوں کے فرمودات، واقعات اور قرآنی حوالے پیش کیے ہیں ، جن سے اُن کے وسیع دینی علم کا پتا چلتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشد حسین۔حیدرآباد،انڈیا
سوئے حجاز سفر نامہ نظر نواز ہوا۔دل میں زیارتِ کعبہ کی زبردست خواہش پیدا ہوئی ہے۔

Donnerstag, 14. Juli 2011

انتساب

انتساب

حضرت ابراہیم علیہ السلام
حضرت بی بی ہاجرہ۔۔ اور
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نام





یوں روشن جان ہوئی
دل میں کہیں جیسے
مغرب کی اذان ہوئی

ابتدائیہ

ابتدائیہ

۔۔۔۔ اُردو ادب میں دو طرح کے سفرنامے لکھے جارہے ہیں۔ بہت اچھے اور بہت بُرے۔ سفرنامہ نگاری کے ایسے ماحول میں میراسفرنامہ لکھنے کاکوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ میں اچھے سفرناموں کو پڑھ کر خود کو بے مایہ محسوس کرتاہوں اور بُرے سفرنامے پڑھ کر عبرت پکڑتاہوں۔ بُرے،بھلے کی تمیز کئے بغیر لکھنا چاہتاتودہلی کا سفرنامہ اور جرمنی کا سفرنامہ دوکتابیں تو آسانی سے تیارہوسکتی تھیں۔ پھر انگلینڈ، فرانس، ہالینڈ، سوئیٹزرلینڈ جیسے ممالک یہاں سے کون سے دور ہیں۔ جب جی چاہے ان ممالک میں ایک دو ہفتے گذارآئیے اور سفرنامہ لکھ لیجئے۔ ۔سویکم دسمبر۹۶ء تک جب مجھے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے روانہ ہوناتھا، میرا قطعاً کوئی ارادہ نہ تھاکہ میں کوئی سفرنامہ لکھوں گا۔ میں اس سفر کو اپنی ذات اور اپنے احباب تک ہی محدود رکھناچاہتاتھا۔ لیکن یہ سفر میرے لئے صرف ایک سفر اور مذہبی فریضے کی ادائیگی نہ رہا۔ میں نے اپنے جسم کے ساتھ اپنے دل، اپنے ذہن اور اپنی روح کو پے در پے انوکھے تجربوں سے گذرتے دیکھا۔ میں نے جسمانی سطح پر سفر کرنے کے ساتھ فکری اور روحانی طورپربھی سفرکیا.... پھر اس مختلف الجہات سفرکو کسی ایک نقطے پریک جا ہوتے بھی محسوس کیا۔ سویہ اسی روحانی تجربے کی شدت تھی جس نے مجھے یہ سفرنامہ لکھنے پر مجبور کردیا۔
۔مذہبی عقائد کے سلسلے میں اصولاً میں اعتدال پسندی کو بہتر سمجھتاہوں۔ انتہاپسند مذہبی رویّہ کوئی بھی اختیارکرے، اپنے مخالفوں کو دکھ پہنچانے کے باوجود یہ رویّہ بالآخر اپنے ہی مسلک کو نقصان پہنچاتاہے۔ مختلف فرقوں کے مختلف نظریات اور تصورات بنیادی طورپر جزوی سچائیاں ہیں ،سکّے کا ایک رُخ ہیں اور اُس رُخ کی مناسب ترجمانی ان کے ذریعے ہوجاتی ہے۔ لیکن کسی ایک جزوی سچائی کو مکمل سچائی مان کر کسی دوسری جزوی سچائی کو جبراً دبانا مناسب نہیں ہے۔ میرے اس سفرنامہ میں مذہب کے تئیں میرے رویوں اور تصورات کا اندازہ کیاجاسکتاہے۔ اس سفرکے دوران کہیں میرے تصورات میں مزید پختگی آئی ہے اورکہیں بہتر تبدیلی آئی ہے۔ تبدیلیاں غوروفکر کے ارتقائی عمل کے باعث آئیں تو وہ ہر سطح پر مفید ثابت ہوتی ہیں۔ ’’سوئے حجاز‘‘ میں میرے نظریات اور تصورات جس انداز میں آئے ہیں ان سے اتفاق کرنا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی علمی رنگ میں اور عالمانہ انداز سے میری اصلاح کرناچاہے یا مجھے سمجھاناچاہے تو میں دیانتداری کے ساتھ مزید سمجھنے کے لئے، مزید غور و فکر کے لئے تیارہوں۔ لیکن اگر کوئی کسی رنگ میں بلیک میل کرکے یا ڈنڈے کے زور سے مجھے اپنی بات منواناچاہے تو میں ایسے کسی بھی شخص کے فرمودات پر اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔ ابھی تک میں مجموعی طورپر مختلف مذہبی مسالک کے تعلق سے ایک اصولی بات کررہاتھا۔ اب مجھے اُس دانشور طبقے کے حوالے سے بھی کچھ عرض کرنا ہے جو مذہب بیزار ہے۔
۔۔۔۔۔ جو لوگ فیشن کے طورپر خود کو ملحد یا دہریہ کہلواکرخوش ہوتے ہیں اور اسی الحاد کو اپنی دانشوری سمجھتے ہیں جبکہ یہ سب کچھ بے حد مصنوعی ہوتاہے مجھے ایسے دانشوروں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہنالیکن وہ لوگ جو کسی فیشن کے طورپرنہیں بلکہ فکری اعتبارسے اس سطح پر ہیں کہ مذہب سے بیزاری محسوس کرتے ہیں ان کے حوالے سے مجھے چند باتیں ضرور کرنی ہیں۔ ایسے دانشوروں کاخیال ہے کہ مقامات مقدسہ پرجاکر ہمیں اپنے اندرجو تبدیلیاں محسوس ہوتی ہیں وہ ان مقامات سے وابستہ ہماری گہری عقیدت کا نفسیاتی اثر ہوتاہے۔ بجاارشاد..... اگر ایسے مقامات پر جاکر کسی کو ذہنی، قلبی اور روحانی بالیدگی نصیب ہوتی ہے، اس کی حالت میں بہتر تبدیلی آتی ہے تو خود جدید نفسیاتی علم کی رو سے بھی یہ ایک بہترین علاج ہے۔ بعض نفسیاتی امراض کااگر اس طریقے سے علاج ہوجاتاہے تو اس سے مذہب سے لاتعلق، جدید علوم سے بہرہ ور ہمارے دانشوروں کو خوشی ہونی چاہیے۔
۔۔۔۔ ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے امّتِ کلیم، امّتِ مسیح اور امّتِ محمدؐیہ..... تینوں مذاہب میں گہری محبت اور عقیدت پائی جاتی ہے۔ مذہب سے متنفردانشوروں کے لئے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت میں عظیم انقلابی کردار موجودہے۔ حضرت ابراہیم کے دور میں دو قبیح رسمیں معاشرتی سطح پر فروغ پانے لگی تھیں۔ بہت سے لوگ رہبانیت کے زیراثر تجردپسندی کی طرف مائل ہونے لگے تھے، بعض انتہاپسند اپنی مجردانہ زندگی کو ہر شبہ سے بالارکھنے کے لئے عضوِ مخصوصہ کو ہی کٹوانے لگے تھے۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری..... ایسے ماحول میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس راہبانہ رسم کاخاتمہ کرنے کے لئے اس کی تہذیبی و ثقافتی علامت کے طورپر رسم ختنہ شروع کرادی۔
۔۔۔۔ ۔اُسی دور میں ایک اوربے رحمانہ رسم یہ تھی کہ کسی قربانی کے حوالے سے بڑے بیٹے کو ذبح کردیاجاتاتھا۔سومیرے دانشور دوست ا گر اس تناظر میں ہی غور کریں تو حضرت ابراہیم کے ذریعے حضرت اسماعیل کا قربان ہوجانے کے لئے راضی ہونااور پھر آخری مرحلہ میں بیٹے کو ذبح ہونے سے بچانے کے لئے خدا کی طرف سے دنبہ آجانا اور پھر انسانی قربانی کی جگہ جانوروں کی قربانی کا رائج ہوجانایہ بھی انسانی قربانی کے خلاف ایک انقلابی قدم بنتاہے...... سو ہمارے دانشور احباب اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذکورہ دواقدامات کوغور سے دیکھیں تو انہیں احساس ہوگاکہ اُس زمانے کی محدود دنیامیں نسلِ انسانی خود ہی اپنے خاتمہ کی طرف جارہی تھی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مذکورہ انقلابی اقدامات سے نسلِ انسانی کے پھلنے پھولنے کے امکانات کو نمایاں کردیا۔ یہ میں ان دوستوں کے انداز میں بات کررہاہوں جو مذہب سے بیزار ہیں۔ انہیں ان کے مخصوص اندازِ نظر کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظمت سے آگاہ کیاہے۔ ذاتی طورپر میں ختنہ کے حکم، ذبیحہ کے حکم اور پھر بیٹے کی جگہ دنبہ کی قربانی کے حکم کو خدائی احکامات میں شمار کرتاہوں۔
۔۔۔۔۔۔ ’’سوئے حجاز‘‘ میں کہیں کہیں میرا ردِّ عمل شدید بھی ہوگیاہے۔ حقیقتاً یہ ان متشدد رویوں کا ردِّعمل ہے جو مجھے اپنی ذاتی زندگی میںیا اس سفر کے دوران پیش آتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود اگر کسی کی اس سے دلآزاری ہوتی ہے تو میں پیشگی معذرت کئے لیتاہوں۔ تاہم میرے ردِّعمل سے میرے فکری رجحانات کو بہتر طورپرسمجھاجاسکتاہے۔ اپنی ذاتی زندگی میں کبھی کبھار میں مذہبی امور میں کسی حد تک شوخ بھی ہوجاتاہوں۔ بعض عقلی باتیں دل کو لگتی ہیں لیکن خدا جانے کعبہ شریف کی دیواروں میں کیا بھید تھے کہ کعبہ کاسامنا ہوتے ہی میری ساری شوخیاں اورعقلی باتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ پھر میرے ساتھ وہاں ایسے ایسے اسرار رونما ہوئے اور اتنے انوکھے روحانی تجربے ہوئے کہ انہیں پوری طرح بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔روانگی سے پہلے میرے ذہن میں یہ تاثر تھاکہ مکہ میں جلالی شان کا سامنا ہوگا۔وہاں شاید میں زیادہ دیر تک ٹک نہیں پاؤں گا اور مدینہ کی جمالی شان میں زیادہ مزہ آئے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مدینہ کی جمالی شان میں بھی بہت مزہ آیا لیکن کعبہ شریف نے تو جیسے مجھے باندھ لیاتھا۔ محبت کی، عقیدت کی عجیب سی ڈور تھی۔ بقول شاعر:
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے
میں نے ’’سوئے حجاز‘‘ میں اسی ’’عالم نو‘‘کی چند جھلکیا ں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرا یہ سفر ویسے تو جسمانی، فکری اور روحانی تینوں سطحوں پرہواتھااور تینوں سطحوں پر اس کے اثرات مجھے آج بھی محسوس ہوتے ہیں لیکن اس سفرکے روحانی اثرات تو جیسے میری روح کی گہرائیوں تک رچے بسے ہوئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔مجھے امید ہے کہ بعض امور میں اختلاف رکھنے کے باوجود میرے قارئین، میرے اس سفر میں اپنی شرکت کو محسوس کریں گے۔
’’اے اللہ!میں تجھ سے مانگتاہوں،کامل ایمان اور سچا یقین اور کشادہ رزق اور عاجزی کرنے والا دل،اور تیرا ذکر کرنے والی زبان، اور حلال اور پاک روزی اور سچے دل کی توبہ اور موت سے پہلے کی توبہ اور موت کے وقت کا آرام اور مرنے کے بعد مغفرت اور رحمت اور حساب کے وقت معافی اور جنت کا حصول اور دوزخ سے نجات.... یہ سب کچھ میں مانگتاہوں تیری رحمت کے وسیلہ سے، اے بڑی عزت والے، اے بڑی مغفرت والے، اے پروردگار میرے علم میں اضافہ کر اور مجھے نیک لوگوں میں شامل فرمادے‘‘(آمین)
۔۔۔۔۔ ۔میں طوافِ کعبہ شریف کے ساتویں چکرکی اس مخصوص دعاکے ساتھ اپنے ابتدائیہ کو مکمل کرتاہوں!
خاکسار
حیدرقریشی ...مقیم جرمنی

اراد ے سے روانگی تک

اراد ے سے روانگی تک


۔۔۔۔۔۱۹۹۱ء کے وسط میں مبارکہ اور ہمارے تین بچوں رضوانہ، ٹیپو، مانوکا جرمنی پہنچ جانا ہم سب کے لئے بیک وقت خوشی اور پریشانی کا موجب تھا۔ خوشی اس لیے کہ یورپ کے دروازے ہمارے خاندان کے لئے کھُل رہے تھے، پریشانی اس لئے کہ میں اور دونوں بڑے بیٹے شعیب اور عثمان، ہم تینوں پاکستان میں تھے۔ ظاہری حالات کے لحاظ سے ہمارے جرمنی پہنچنے کا ابھی کوئی امکان دکھائی نہیں دیتاتھا۔ یوں گویا ہمارے خاندان کے ٹوٹنے اور بکھرنے کا خطرہ موجود تھا۔ لیکن پھر خدانے کرم کیا۔ ایک طوفانی لہرآئی..... ہم تینوں باپ، بیٹے اس طوفانی لہر میں بالکل بے دست و پا تھے۔ اور پھر یوں ہواکہ طوفان کی زد میں آئے ہوئے باپ بیٹوں کا سہارا ان کا خدا بن گیا۔ دنیاوالوں کے دیکھتے ہی دیکھتے ہم بے آسرا لوگ یونائیٹڈ نیشنز کے ادارہ برائے مہاجرین کے اس شعبہ کے تحت جرمنی پہنچ گئے جو بچھڑے ہوئے خاندانوں کو ملاتاہے۔ جو لوگ تین تین لاکھ روپے ایجنٹوں کودے کر چوری چھُپے جرمنی پہنچے تھے اور یہاں سیٹ ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں ماررہے تھے انہوں نے دیکھاکہ یہ تین افراد اس شان سے جرمنی پہنچے ہیں کہ ان کے لئے ٹکٹUNHCRنے فراہم کیا، ویزہ خود جرمن حکام نے دیااور فرینکفرٹ ایئرپورٹ
پر یونائیٹڈ نیشنز کی ایک نمائندہ نے آکر انہیں ریسیو کیا۔
جو کوں راکھے سائیا ں مار سکے نہ کوئی
۔۔۔۔۔۔بعد میں عجیب عجیب الزام تراشیاں کی گئیں۔ پہلے ایک خاص مسلک کے حوالے سے کہاگیاکہ انہیں’’ اُن لوگوں‘‘ نے ایسی شان و شوکت سے بھجوایاہے۔ جب یہ جھوٹ ظاہر ہوگیاتو کسی کو اپنے بہتان پر شرمندہ ہونے کی توفیق نہیں ملی اُلٹامجھے امریکہ کا ایجنٹ کہاجانے لگا۔ (کاش امریکہ اپنی کوئی چھوٹی موٹی ایجنسی مجھے دے ہی دے۔ موجودہ محنت مزدوری کی مشقت سے تو آرام ملے گا) بہتان طرازی کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کایہ فرمان یاد نہیں آیاکہ وَتُعِزّ من تشاء وتذلّ من تشاء بیدک الخیر۔ اِنّ اللہ علیٰ کلّ شی ءِ قدیر۔ جرمنی پہنچنے کے بعد نہ صرف مجھے خدا کے فضل و کرم سے قانونی تحفظات مل گئے بلکہ میرے کیس کی بنیا دپر مبارکہ اور بچوں کا کیس بھی منظور کرلیاگیاجو تین برسوں سے لٹکاہوا تھا۔ ان تحفظات کے علاوہ بھی خدا کے فضل اور احسانات کی ایک پھوار تھی (اور اب بھی ہے) جس نے ہماری زندگی کے صحراکو سیراب کردیاتھا۔ ان سارے احسانات کی شکر گزاری کے لئے میرے اور مبارکہ کے درمیان طے ہواتھاکہ ہم دونوں مکہ شریف اور مدینہ شریف جائیں گے۔ عمرے کی سعادت حاصل کریں گے، مقامات مقدّسہ کی زیارت کریں گے۔ دسمبر ۱۹۹۵ء میں جانے کا ارادہ تھالیکن اس سے دوماہ پہلے میرے چھوٹے بھائی اعجاز نے ایک بھاری رقم بطور قرض مانگ لی۔ میں شش و پنج میں تھا، مبارکہ نے کہا ہماری عمرہ کرنے کی نیت پکی تھی۔ خدا نیتوں کا حال جانتاہے۔ آپ اپنے چھوٹے بھائی کی ضرورت پوری کردیں۔ خدا کو ہماری نیکی پسند آگئی تو اس سال نہ ہوسکنے والے عمرہ کو بھی قبول فرمالے گا اور اگلے برس سچ مچ عمرہ کے لئے جانے کے وسائل بھی عطاکردے گا اور جانے کی توفیق بھی بخش دے گا۔ چنانچہ میں نے مبارکہ کے کہنے پر عمل کیا اور ا سکی نیت کے مطابق دسمبر ۱۹۹۶ء میں ہمیں عمرہ پر جانے کی سعادت نصیب ہوگئی۔
۔۔۔ ۔۔۔پہلے السعودیہ ائرلائن کاٹکٹ خریدا۔ یکم دسمبر سے ۱۲دسمبر تک کا عمرہ ٹکٹ تھا۔ ۲۶؍نومبر۱۹۹۶ء کو ٹکٹ اور پاسپورٹ لے کر سعودی سفارت خانہ سے ویزہ کے حصول کے لئے روانہ ہوئے۔ بون میں سفارت خانوں والی سائڈ پر جانے کے لئے یا تو ایک طویل چکر کاٹ کر پُل پر سے گذرناہوتاہے یا پھر دریامیں موجود فیری(اسٹیمر) پرکارسمیت سوارہوکردوسرے کنارے تک جاناہوتاہے۔ میرے داماد عزیزم حفیظ کوثر مجھے اور مبارکہ کو سعودی عرب کے سفارت خانہ تک اپنی کارمیں لئے جارہے تھے۔ دریائے رائن کے کنارے پہنچے تو وہ کارکو سیدھافیری کے اندرلے گئے۔ وہاں پہلے بھی متعدد کاریں کھڑی تھیں۔ میں اپنی کارکی اگلی سیٹ پر بیٹھا سامنے کانظارہ کررہاتھا۔ یکایک ایک انوکھا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ دریاکا دوسرا کنارہ میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ وہاں درختوں کابڑا اور گھنا ذخیرہ تھا۔ پاکستان میں ٹرین کا سفر کرتے ہوئے تو میں نے کئی بار دیکھا کہ درختوں کے جھنڈ ہماری گاڑی کے ساتھ ساتھ نیم دائرہ سابنائے ہوئے بھاگتے ہیں اور پھر جیسے ہارکرپیچھے رہ جاتے ہیں۔ لیکن یہ نظارہ تو کچھ اور ہی تھا۔ سچ مچ زمین اپنے مدارپر گھومتی نظرآئی۔ درختوں کاجھنڈ ایک مستانہ وقار کے ساتھ جیسے کسی مرکز کا طواف کرنے لگاتھا۔ پہلے تو میں نے سمجھاشاید یہ کوئی کشفی نظارہ ہے لیکن جیسے ہی میں نے اپنے دائیں طرف گردن گھمائی، دریاکاپانی نظرآیا اور ساتھ ہی یہ واضح ہوگیاکہ ہماری فیری حرکت میں آچکی ہے۔ کارمیں بیٹھے ہونے کے باعث نہ تو ہمیں فیری اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی تھی اور نہ ہی اس کے حرکت میں آنے کا احساس ہواتھا۔ کوئی ہلکاسا جھٹکا بھی نہیں لگاتھا۔ حقیقت واضح ہوجانے کے باوجود دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے پھر ایسے ہی لگ رہاتھاکہ زمین کو اس کے اپنے مدار پر گھومتے ہوئے دیکھ رہاہوں۔ تب مجھے گلیلیو کی یادآئی۔ گلیلیو نے اس سچائی کااظہار کیاتھاکہ ہماری زمین مرکزِ کائنات نہیں ہے۔ زمین گول ہے اور اپنے سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ انکشاف کسی مذہبی عقیدے پر براہ راست ضرب نہیں لگارہاتھا اس کے باوجود گلیلیو کے معاشرے کے مذہبی حلقوں میں قیامت برپاہوگئی۔ زمین کو مرکزِ کائنات اور خود کو اشرف المخلوقات سمجھنے والوں کو محسوس ہواکہ زمین کی مرکزیت کی نفی ہوئی تو ان کے اشرف المخلوقات ہونے کی بھی نفی ہوجائے گی۔ سو اپنے انسانی شرف کی حفاظت کے لئے گلیلیو کو مرتداورواجب القتل قرار دے دیاگیا۔ اُس زمانہ میں زمین پر خداکی نیابت کے دعویدار نے اس قتل نامہ پر عمل درآمدکاحکم دے کر خود ہی شرف انسانی کی نفی کردی۔ گلیلیو اپنی سچائی کوجاننے کے باوجود فتویٰ کفر، سماجی دباؤ اور بلیک میلنگ کے سامنے گھبراگیا۔ اس نے باقاعدہ طورپر معافی مانگی، معافی قبول کرنے کی التجاکی۔ میں گناہ گارہوں۔ بے شک کفرکا مرتکب ہواہوں۔اپنے سارے گناہو ں کی غیر مشروط معافی مانگتاہوں۔ نہ یہ زمین گول ہے،نہ سورج کے گرد گھومتی ہے بس مجھے معاف کردیں۔ لیکن گلیلیو کے سارے معافی نامے ’’خداوندیسوع مسیح‘‘ کے خلیفہ نے بڑی حقارت کے ساتھ مسترد کردیئے۔ اس بدبخت کی معافی کا سوال ہی نہیں پیداہوتا، اسے ذلّت کے ساتھ ہلاک کیاجائے اور پھر گلیلیو کو ہلاک کردیاگیا۔ لیکن زمین تو پھر بھی گول ہی رہی اور آج بھی سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ اور آج یہ کرۂ ارض تو کیا ہمارا پورا نظامِ شمسی بھی اس عظیم ترکائنات میں ایک حقیرسی شے لگتاہے۔ ویسے گلیلیو کے عہد میں ’’خداوندیسوع مسیح‘‘کے نائب کاہی قصور نہیں، ہردور میں مذہبی انتہاپسندی اور دانش کاٹکراؤ رہاہے۔ و قتی طورپر ہمیشہ دانش ہی کو ذلیل کیاگیاہے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہمیشہ دانش کے ساتھ روارکھی جانے والی ساری ذلّت آخر مذہبی چیرہ دستوں کی ذلّت اور رسوائی بنی ہے.... میں گلیلیو کے دور سے اپنے آپ تک پہنچاتو سعودی سفارت خانہ آچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔ سفارت خانے میں ویزہ کے حصول کے لئے جب کاغذات جمع کرائے تو ایک دو اَڑ چنیں بیچ میں آگئیں۔ جرمنی میں ہر انسان کی نجی زندگی کا احترام کیاجاتاہے۔ پاسپورٹ پر نہ تو کسی کی ولدیت لکھی جاتی ہے اور نہ مذہب کا کوئی خانہ ہوتاہے۔ میاں بیوی کے پاسپورٹوں پرایک دوسرے کانام اسی صورت میں لکھاجاتاہے جب دونوں کے کیس منظور شدہ ہوں۔میرا پاسپورٹ جب بناتھا تب مبارکہ کاکیس منظور نہیں ہواتھا اس لئے میرے پاسپورٹ پر اس کا نام درج نہیں ہوسکا۔ جب مبارکہ کا کیس منظور ہوگیاتب اس کے پاسپورٹ میں اتفاقاً میرا نام درج ہونے سے رہ گیا۔ ہمارے لئے یہ کوئی اہم مسئلہ بھی نہیں تھا.... لیکن اب سفارت خانۂ سعودی عرب والوں کا مسئلہ یہ تھاکہ ہم دونوں کومیاں بیوی کیسے ماناجائے۔ہمارا نکاح فارم تو ۱۹۷۳ء میں خانپور میں آنے والے قیامت خیز سیلاب میں بہہ گیاتھا اور نکاح نامہ کاثبوت تو میں یو۔این۔او والوں کو بھی فراہم نہیں کرسکاتھا۔ پاسپورٹ پر بے شک اندراج نہیں تھا لیکن جرمن حکام نے ہمیں میاں بیوی مان لیاتھا۔ سعودی سفارت خانہ والوں سے میں نے کہا کہ ہمارے پانچ بچے ہیں اور اب وہی ہمارا نکاح نامہ ہیں۔ کہنے لگے چلیں ان بچوں کے کاغذات دکھادیں۔میں نے کہا اگر مجھے اس الجھن کاعلم ہوتا تو پانچوں بچوں سمیت کاغذات لے کرآتا۔ میرا خیال ہے میرے لب و لہجے سے انہیں اندازہ ہوگیاہوگاکہ ہم میاں بیوی ہیں وگرنہ اتنا بڑا مسئلہ اتنی آسانی سے حل نہ ہوتا۔ سفارت خانہ کے متعلقہ افسر نے کہا دوپہر دوبجے کے بعد آکر ویزہ لے جائیں۔ سوہم اطمینان سے بون شہر میں گھومنے پھرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔پہلے رائن دریا کے اِدھر والے کنارے پر گئے۔ وہاں سے حدِ نگاہ تک آنے والے سارے مناظر کو زاویے بدل بدل کر دیکھا، وہیں’’ ناشتہ کم لنچ‘‘ کیا۔ اس کے بعد مارکیٹوں کے چکر لگانے لگے۔ تھوڑی بہت خریداری کرلی۔ ڈیڑھ بجے تک ہم لوگ واپس سعودی سفارت خانے پہنچے۔ پونے دو بجے متعلقہ آفس سے رجوع کیا۔ مقررہ وقت دوبجے سے پہلے ہی ہمیں ویزہ مل گیا۔ خدا کا شکر اداکیا اور خوشی خوشی گھر لوٹ آئے۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۲۶؍نومبرسے ۳۰؍نومبر تک ارضِ حجاز جانے کے لئے چھوٹی موٹی تیاری کرتے رہے۔ یکم دسمبر کو گیارہ بجے ہم اپنی مقامی ٹرین S1(ایس۔ون) پر سوار ہوکر اپنے شہر Hattersheimسے فرینکفرٹ آئے۔ یہاں سے پھر ایک اور ٹرین S8(ایس۔ایٹ) لی اور ائیرپورٹ جاپہنچے۔ منجھلا بیٹا عثمان ایئرپورٹ تک ہمارے ساتھ آیاتھا جبکہ شعیب اس لئے گھر پر رہاتھاکہ چھوٹے بھائی بہن کا خیال رکھ سکے۔ ایک دو دن کے بعد رضوانہ نے فُلڈا سے ہمارے گھر آجاناتھا تاکہ ہماری غیر حاضری میں سارے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرسکے۔ ایئرپورٹ کی ساری کاروائی سے گذرنے کے بعد ہم ڈیڑھ بجے السعودیہ کے جہاز میں سوار ہوئے اور اپنی سیٹیں سنبھال لیں۔
۔۔۔۔۔۔ جہاز اُڑنے لگاتو د ل کی عجیب سی حالت ہوگئی۔ ہوائی سفر کی وجہ سے نہیں بلکہ سفر کے رُخ کی وجہ سے۔ پھر جب (غالباً)پائلٹ نے اُڑان بھرنے کے ساتھ ہی دعاء السفر پڑھنی شروع کی تو اسپیکر سے نشر ہوتی ہوئی اس دعا کے الفاظ نے ایسا اثرکیاکہ مجھے لگامیری روح جسم سے الگ ہوکر مگر میرے ساتھ ساتھ پرواز کررہی ہے۔مجھ جیسا گناہ گار ربِ کعبہ کے گھر حاضری دینے جارہاتھا۔ کہاں میں کہاں وہ مقام اللہ اللہ! بے اختیارہونٹوں سے تسبیح و تحمید ہونے لگی...... یہ کیفیت اس وقت ٹوٹی جب مبارکہ نے بتایاکہ اس کی طبیعت خراب ہورہی ہے۔ اصل میں حرمین شریفین جانے کی خوشی میں مبارکہ نے صبح کا ناشتہ نہیں کیاتھا۔ ایئرپورٹ تک پہنچنے کے چکر میں دوپہرکاکھانا بھی رہ گیاتھااور اب اسے بھوک محسوس ہونے لگی تھی۔ ائیرہوسٹس کو بلاکر اس صورتحال سے آگاہ کیا۔ اس نے کہااگر گھبراہٹ زیادہ ہے تو فوری طورپر کوئی جوس لادیتی ہوں ورنہ آدھے گھنٹہ تک کھانا لے آتی ہوں۔ سو پہلے جوس آگیا۔ پھر کھانا... اور مبارکہ کی طبیعت بہتر ہونے لگی۔
۔۔۔ ۔۔۔جرمنی اور سعودی عرب میں وقت کے حساب سے دوگھنٹے کا فرق ہے۔ جب ہم دوبجے دوپہرکو جرمنی سے روانہ ہوئے تب جدہ میں سہ پہر کے چار بجے تھے۔ تقریباً پانچ گھنٹے کا سفر تھا۔ دورانِ سفر اچانک ایک صاحب نے اٹھ کر اذان دینا شروع کردی تو اندازہ ہواکہ عصر کی نماز کاوقت ہوگیاہے۔ اذان کے بعد تین صاحبان نے سیٹوں کا درمیانی راستہ روک کر نماز باجماعت شروع کردی۔ ایک جماعت ختم ہوئی تو تین افراد کی ایک اور جماعت کھڑی ہوگئی اور اس جماعت کے بعد تین افراد کی ایک اور جماعت.... اس دوران باتھ روم کی طرف جانے والے لوگوں کو پریشانی کاسامنا رہا۔ ان پریشان لوگوں میں مسلم بچے، بوڑھے اور عورتیں بھی شامل تھیں غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل تھی اور مسافروں کی خدمت پر مامورجہاز کاعملہ بھی شامل تھا۔ اس عرصہ کے د وران اس لائن میں سب کاراستہ بندرہا۔ باقی سب کو تو خیر تھوڑی بہت پریشانی ہوئی ہوگی، البتہ غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی تبلیغ کا ایک خاموش منظر ضرور بن گیاتھا۔اثر ہواتھایانہیں؟.... یہ تو وہی غیر مسلم جانیں لیکن ابلاغ بہرحال ہوگیاتھا۔ مغرب کی نماز کے وقت پھر یہی سین دہرایاگیا۔ میں نے سیٹ پر بیٹھ کر ہی نماز پڑھ لی تھی بلکہ سفر کی رعائت سے فائدہ اٹھاکر جمع بھی کرلی تھی۔ سلام پھیرا تو دیکھا کہ نماز باجماعت والے صاحبان میں سے بعض لوگ مجھے خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔ جدّہ پہنچے تووہاں رات کے نوبج چکے تھے۔جرمنی میں تب رات کے سات بجے ہوئے.... ائیرپورٹ سے باہر آنے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ باہر ٹیکسی والوں کا ہجوم تھا۔ مکّہ تک جانے کے لئے کوئی ۱۵۰ریال مانگ رہاتھا، کوئی ۲۰۰ریال مانگ رہاتھا اور کوئی ۲۵۰ ریال..... ایک ٹیکسی والے سے طے ہوا کہ وہ ایک سواری اور ساتھ بٹھالے اور ہمارا معاملہ۱۰۰ریال میں طے ہوگیا۔ یوں ہم نے پہلے مرحلے میں کم از کم ۵۰ریال کی بچت کرلی۔ رستے میں میقات کے مقام پر رُکناتھا۔ وہاں سے احرام خریدا۔ عمرہ کے بارے میں معلوماتی اُردو کتابچہ خریدا، غسل کیا، احرام باندھا..... مبارکہ کو صرف غسل کرناتھاکیونکہ خواتین اپنے عام لباس میں عمرہ کرتی ہیں۔ غسل خانوں سے باہر صفیں بچھی ہوئی تھیں، وہاں دو نفل اداکئے۔ عمرہ کی نیت کی اور تلبیہ شرو ع کردی۔ لبیک اَللّٰھم لبیک....
۔۔۔۔۔ ۔مکہ شریف سے پہلے دومقامات پر کاغذات کی جانچ پڑتال ہوئی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے خود ہی سارے معاملات نمٹائے۔ رات بارہ بجے کے لگ بھگ حرم شریف کے سامنے کی ایک سڑک پر ہم ٹیکسی سے اترے، وہاں سے قریب ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے پرلیا۔ یہ صرف رہائش فراہم کرنے والے ہوٹل ہیں۔ کھانا، چائے وغیرہ یہاں نہیں ملتی۔ رہائش کافی آرام دہ ہوتی ہے۔ ہر کمرہ ائیرکنڈیشنر، ریفریجریٹر، گیس سلنڈر، چولہا، اٹیچ باتھ روم کی سہولیات سے آراستہ، اسے آپ جدید طرز کی سرائے بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہم نے جو کمرہ پسند کیااس کاکرایہ قدرے زیادہ تھالیکن کمرہ کشادہ تھا۔ اگر ہم سارے افرادخانہ ہوتے تو اسی کمرے میں پورے آجاتے۔ سامان سیٹ کرنے کے بعد میں باہرآیاتو قریب ہی ایک ایسا ہوٹل دیکھاجہاں کھاناتیارہوتاتھا۔ ہمارے رہائشی ہوٹل کا مالک بنگالی تھا، اردو بول بھی سکتاتھا اور سمجھ بھی لیتا تھا۔ کھانے والے ہوٹل کا مالک سرائیکی نکلا۔ پہلے مرحلے میں ہی اپنے وطن اور اپنے شہر کی خوشبو سی آنے لگی۔ لیکن ارضِ حجاز بھی تو میرا ہی وطن تھا۔ میرے آباواجداد نے تبلیغ اسلام کی نیت سے اس ارضِ مقدس کو خیربادکہاتھایا اسلامی لشکر میں شامل ہونے کے باعث انہیں یہ دھرتی چھوڑنا پڑی، اس کے بارے میں تو وہی بہتر جانتے ہوں گے، میں تو اتناہی جانتاہوں کہ آخرکاروہ ہندوستان میں آبسے تھے اور پھر اس قدیم ہندوستان کی مٹی کے جادونے انہیں اپنا اسیر کرلیاتھا۔ ہندوستان کے قدیم تاریخی تسلسل میں دیکھیں تو باہر سے آنے والی بڑی اقوام میں آریائی، عرب (اور ان کے لشکروں میں شامل دوسری مسلم اقوام) اور انگریز شامل تھے۔ ان میں سے جو اس دھرتی میں رچ بس گئے وہ اسی کا حصہ ہوگئے۔ جوحصہ نہیں بن سکے انہیں نہ اس دھرتی نے قبول کیانہ اس کے بیٹوں نے .... حصہ نہ بن پانے کی نمایا ں مثال انگریز قوم کی ہے اور ان کے لئے برصغیر پاک و ہند کے عوام کا فیصلہ اب تاریخ کاحصہ بن چکا ہے۔ اس دھرتی کا حصہ نہ بن سکنے والوں کو اس دھرتی نے اٹھاکر باہر پھینک دیا۔ بہرحال... سرائیکی ہوٹل کاکھانا عمدہ بھی تھااور سستا بھی... کھانا کھاکرچائے پی اور پھر ہم لَبیک اَللٰھم لَبیک کہتے ہوئے حرم شریف کی طرف جانے کے لئے نکل پڑے۔ ہمیں مسجد الحرام کا جوبڑا گیٹ قریب پڑتاتھاوہ ’’با ب الملک فہد‘‘ تھا
....
***

پہلا عمرہ

پہلا عمرہ

۔۔۔۔۔۔روایت ہے کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعامانگی جائے وہ قبول کرلی جاتی ہے۔ اس چھوٹے سے سفر کے دوران مجھے حضرت علیؓ سے لے کر امام ابو حنیفہؒ تک کئی بزرگان امّت کی باتیں یاد آتی رہیں۔ کہیں میری رہنمائی کرنے والی اور کہیں دل کی گرہیں کھولنے والی باتیں..... مبارکہ کو میں نے بتادیاتھاکہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی اپنی اہم ترین دلی مراد کے لئے دعامانگ لینا۔ دھڑکتے دلوں کے ساتھ ہم ’’باب الملک فہد‘‘ سے گذرنے لگے۔ جیسے ہی خانہ کعبہ کی پہلی جھلک دکھائی دی میں نے اپنی دعامانگ لی۔ بعدمیں جب میں نے مبارکہ سے پوچھاکہ آپ نے کیادعامانگی تھی؟ تو جواب ملا اپنے بچوں کے لئے دعامانگی تھی۔ پھر مبارکہ نے مجھ سے میری دعاکے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے بتایاکہ میں نے صرف اتنی دعامانگی ہے ’’الٰہی! مجھے مستجاب ا لدعوات بنادے‘‘ مبارکہ نے اس کا مطلب پوچھاتو میں نے کہا یوں سمجھ لیں کہ الہٰی میں جب کوئی دعامانگوں اسے قبول کرلیاکرنا..... مبارکہ ہنس پڑی اور کہنے لگی آپ نے اللہ میاں کے ساتھ چالاکی کرلی ہے.... میں نے کہااگر یہ چالاکی ہے تو امام ابو حنیفہؒ بھی بہت پہلے یہی دعامانگ چکے ہیں..... اب میں نے بھی یہ دعامانگ لی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتاہے۔

ہم مطاف تک پہنچے تو خانہ کعبہ کاجاہ و جلال اپنااثر دکھانے لگا۔ سامنے رکن یمانی تھا۔ جاتے ہی پہلے اسے بوسہ دیا۔وہاں سے حجراسود کی طرف بڑھے اور مخصوص دعاؤں کے ساتھ وہاں سے طوافِ کعبہ کاآغازکیا۔ پہلے چکر ہی میں نہ صرف میں نے خود حجراسود کو بوسہ دیابلکہ مبارکہ کو بھی کھینچ کھانچ کروہاں تک لایا اور اس نے بھی بوسہ کی سعادت حاصل کرلی۔ اس وقت جب یہ احوال تحریرکررہاہوں تو مجھے حضرت عمرؓ کے الفاظ یادآرہے ہیں جن کامفہوم کچھ یوں تھاکہ اے حجرِاسود! میرے نزدیک تو صرف ایک پتھر ہے لیکن میں تجھے اس لئے بوسہ دے رہاہوں کہ میرے آقاحضرت محمدؐ نے تجھے بوسہ دیاتھا۔ ۔۔۔پر سچی بات ہے اُس وقت مجھے کسی ایسی بات کا ہوش نہ تھا۔ بس گرتے پڑتے، جیسے تیسے منزلِ مقصود تک پہنچنے کی دُھن تھی۔ اس دھن میں مجھ سے تھوڑی سی ’’بئی مانی‘‘ بھی ہوگئی۔ دو تین لائنیں بناکر لوگ باری باری بوسہ دے رہے تھے کہ ان لائنوں میں سے ایک دو اور ضمنی لائنیں نکل آئیں۔ یوں افراتفری سی پیداہوگئی اور مجھے اس افراتفری سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل گیا۔ میں اپنے دائیں، بائیں اطراف والوں کو تھوڑا تھوڑا سا دھکیلتاہوا آگے بڑھا اور حجراسود پر سر اورہونٹ رکھ دیئے۔ اُس افراتفری کویادکرتاہوں تو اب اندازہ کرسکتاہوں کہ قیامت کے دن بھی ایسی نفسانفسی ہوگی۔ اگر وہاں بھی میرے جیسے گنہگار اسی طرح منزل مراد پاگئے اور دنیا میں جنت کے ٹھیکیدار اور دعویدار ویسے ہی لائن حاضر رہ گئے تو کیاہوگا۔

رند بخشے گئے قیامت کو
شیخ کہتا رہا حساب حساب
۔۔۔۔۔۔سات چکر پورے کرنے کے بعد خانہ کعبہ کے دروازہ (ملتزم) کے سامنے دو نفل پڑھے۔ مخصوص دعاؤں کے ساتھ اپنی دلی دعائیں کیں، خدا کے بے پایاں احسانات کا شکراداکیا۔ پھر تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر مقامِ ابراہیم کے پاس دونفل اداکئے۔ وہاں بھی دعاؤں کی توفیق ملی۔ پھر آبِ زم زم پیا۔ حجراسود کے سامنے حاضری دی۔ دور سے بوسہ دیا اور ’’الصفا‘‘ گیٹ سے گذرکر کوہ صفا تک پہنچے۔سعی کی نیت کی، تہلیل و تکبیر پڑھی اور سعی شروع کی۔ مروہ کی طرف جاتے ہوئے مجھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کاحضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو اس وادئ غیر ذی ذرع میں چھوڑجانا یاد آیا، پھر بھوک، پیاس اور تنہائی کا خوف.... حضرت اسماعیل کا تڑپنا اور حضرت ہاجرہ کی بے تابی.... کبھی صفا کی چوٹی پر جاکر کسی امدادی قافلے کی راہ دیکھنا اور کبھی دوسری سمت دوڑ کر جانا اور مروہ کی چوٹی سے کسی قافلے کی راہ تکنا.... ہزاروں برس پہلے کے اس مکہ کے ویران بیابان اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو درپیش درد ناک اور خوفناک صورتحال کوجیسے لفظوں میں چاہیں بیان کرلیں، اُن دونوں کے دُکھ درد کی کیفیات کی ترجمانی ہوہی نہیں سکتی۔بس ان کیفیتوں کوایک حد تک محسوس کیاجاسکتاہے۔ سعی کے سات چکروں کے دوران مجھے باربار بی بی ہاجرہ کی تڑپ اپنے سینے میں محسوس ہوتی رہی اور اسی حالت میں دل سے دعائیں نکلتی رہیں۔ میرے اندر کے صحرا میں میرے آباء واجداد کے آباء و اجداد کے جدِّ امجدحضرت اسماعیل علیہ السلام کی برکت سے ایک چشمہ پھوٹ پڑاتھا۔ دل کا اور آنکھوں کارابطہ ہوگیاتھا۔ میرے اندرکے صحرا کی سلگتی ہوئی ریت سیراب ہونے لگی تھی۔
۔۔۔ ۔۔۔مردہ کی طرف ساتواں چکر پوراہوتے ہی ہماراعمرہ مکمل ہوگیا(الحمد للہ)۔ عمرہ مکمل ہونے پر کسی سائڈ سے تھوڑے سے بال کاٹنے ہوتے ہیں۔ اسے بال ترشوانے کی علامت کہہ سکتے ہیں۔ وہا ں بعض خواتین اس کارِ خیر کی تکمیل کے لئے ہاتھ میں قینچیاں لئے کھڑی تھیں۔ ان سے قینچی لے کر میں نے مبارکہ کے تھوڑے سے بال کاٹے اور مبارکہ نے ڈھونڈ ڈھانڈ کرمیرے تھوڑے سے بال کاٹے۔ قینچی واپس کرتے وقت اس خاتون کو ایک ریال بطور ہدیہ یا عطیہ نذرکرناپڑا۔ (اگلے دن پھر ہم نے اپنی قینچی خریدلی)۔
۔۔۔۔۔ ۔عمرہ مکمل ہونے کے بعد ہم ’’زم زم کا کنواں‘‘ دیکھنے کے لئے نیچے کی طرف گئے انڈرگراؤنڈ حصے میں چھوٹی چھوٹی ٹونٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ ساتھ ہی زنجیر سے بندھے ہوئے گلاس رکھے تھے۔ یہ ’محبت کی زنجیر‘ تھی تاکہ’ مشترکہ محبت‘ کو کوئی ایک عاشق اپنی ذاتی ملکیت نہ بناسکے۔ ایک کمرہ میں ایسے لگاکہ چشمہ کا منبع وہاں ہوگا۔ وہاں گئے تو بھاری بھرکم پمپ لگے ہوئے دیکھے۔ پہلے تو خیال آیاکہ مشینوں نے دلوں سے بڑھ کر مذہبی شعائرپر بھی قبضہ کرناشروع کردیاہے لیکن پھر سوچاکہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں ہمہ وقت آتے چلے جانے والے لاکھوں پروانوں کو پانی کی فوری اور عمدہ فراہمی کے لئے ایسا کرنابے حد ضروری تھا۔ زم زم کے پمپ کودیکھ کر باہر نکلاتومیں نے باہر سے چشمہ کی طرف جانے والے رستے کی طرف غور سے دیکھا۔ ہائیں۔ یہ سامنے بورڈ پر کیا لکھاہے؟ میں نے عینک اتارکر اس کے شیشوں کو صاف کیا۔ آنکھوں کو مل کر دیکھا۔ کہیں مجھے نشہ تو نہیں ہوگیا۔ وفورِ شوق کا نشہ، جس نے طویل سفر کے بعد آرام کرانے کی بجائے دربارِکعبہ میں لاکھڑاکیاتھا.... بورڈ پر تین لائنوں میں زم زم کا نام لکھاتھا۔

پہلی لائن: بئر زم زم،
دوسری لائن
:Zam Zam ، تیسری لائن:ز م زم کا کنو اں
تیسری لائن میں اردو عبارت دیکھ کر خوشی ہوئی لیکن یہ بعد کی بات ہے۔ میں توبئر زم زم کے الفاظ سے ہی سرور حاصل کرنے لگا تھا۔ ایک دوست یاد آگئے جو کہا کرتے ہیں کہ بئر شراب نہیں ہوتی۔ غالبؔ یادآگئے:
رات پی زم زم پہ مئے اور صبحدم
دھوئے  دھبے  جامۂ  احرام    کے
کہیں ایسانہ ہوکہ جنت میں ملنے والی موعودہ شراباً طہورابھی بئر زم زم سے ملتی جلتی کوئی چیز ہو.... چلیں خیر ہے۔ مجھے اس سے کیا ،یہ توجنتی لوگوں کا مسئلہ ہے۔ میں ازلی گنہگار.... نہ جنت میرا مسئلہ نہ شراباً طہورا کا لالچ.... چشمۂ زم زم کے خواتین والے حصہ سے مبارکہ باہر آئی تو میں نے اسے ’’بئر زم زم‘‘ کے الفاظ دکھائے۔ اس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ایسی چیزیں کہیں بھی ہوں لپک لپک کر آپ تک پہنچ جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔ ۔ یہاں سے ہم حطیم کعبہ میں گئے۔ وہاں دودونفل اداکئے۔ من کی مرادیں مانگیں۔ پھر حطیم والی طرف سے ’’باب الملک فہد‘‘ کی طرف جانے والے رستے کی ایک صف میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئے:
تیرے سامنے بیٹھ کے روناتے دُکھ تینو ں نئیں دَسنا
۔۔۔۔۔ ۔ لگ بھگ دوگھنٹے تک دیدارِ کعبہ سے آنکھیں روشن کرتے رہے۔ اس دوران چند نوافل بھی وقفے وقفے سے پڑھتے رہے۔میرے سامنے کعبہ شریف کی دو دیواریں تھیں۔ ایک حطیم کے طرف والی۔ یہ آدھی سے زیادہ دکھائی دے رہی تھی، دوسری حطیم کے دائیں طرف والی جورُکن شامی سے رُکن یمانی تک بالکل سامنے تھی۔ حجراسود، رُکن عراقی اور ملتزم دوسری طرف تھے۔ حطیم میں میرا اس طرف دھیان نہیں گیاتھالیکن اب یہاں سے بیٹھے ہوئے پہلی بار خانہ کعبہ کا سنہری پرنالہ دکھائی دیا۔ حطیم کی طرف خانہ کعبہ کایہ وہی پرنالہ ہے جس کے نیچے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی بیٹیوں کی قبریں تھیں۔ یہ روایت پرانی عربی کتابوں سے لے کر اُردو میں اہل سنت و الجماعت کے مسلک کی کتابوں تک میں مذکورہے جبکہ ’’موحدین‘‘ قسم کے فرقے اس روایت کی تردید کرتے ہیں یا سکوت اختیار کرتے ہیں۔ اس جگہ کو میزاب الرحمت کہاجاتاہے۔ میزاب ،پرنالے کو کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔ ۔تعمیر کعبہ کی مختلف پرانی تاریخیں میں نے ایک زمانے میں پڑھی تھیں۔ عربی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی طاہرالکردی کی کتاب بھی ان میں شامل تھی اور راولپنڈی سے اہل سنت والوں کی جانب سے شائع کردہ ایک کتاب بھی شامل تھی۔ مختلف تواریخ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جہاں اب خانہ کعبہ ہے یہ دنیامیں خداکاسب سے پہلا گھرتھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں اس گمشدہ مقام کی ازسرِ نو دریافت ہوئی اور تعمیر ہوئی۔ ایک بار جب حضرت ابراہیم مکہ تشریف لائے تو بی بی ہاجرہ فوت ہوچکی تھیں۔ تب حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو ساتھ لے کر ان کی قبر کے گر دایک بڑا سا احاطہ بنادیاجو صرف پتھروں پرپتھررکھ بنایاگیا۔ اس میں گارے کا استعمال نہیں ہوا۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام فوت ہوئے تو انہیں بھی ان کی والدہ ماجدہ کے پہلو میں دفن کیاگیا۔ ان قبروں والی جگہ کو میزاب الرحمت کہاجاتاہے۔ دراصل اسلام سے پہلے بھی کعبہ شریف کی حدود کو کبھی گھٹانے اور کبھی ابراہیمی بنیادوں پر قائم رکھنے کا سلسلہ چلتارہاہے۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے، آپؐ کی حیات مبارکہ میں بھی ایک بار تعمیرِ کعبہ ہوئی تھی۔ تب حجرِ اسود کو اصل مقام پر نصب کرنے کا سنگین قبائلی بحران حضور ﷺ نے نہایت عمدگی سے دور کردیاتھا۔ عام روایت ہے کہ تب تعمیرِ کعبہ کے لئے قبائل کے رزقِ حلال سے جو چندہ جمع ہوا تھا، اس سے کعبہ شریف کی دیوار ابراہیمی بنیادوں تک نہیں لے جائی جاسکتی تھی چنانچہ حطیم کا حصہ چھوڑ دیا گیا۔ تاہم تب بھی اور اب بھی طواف کعبہ کے لئے حطیم شریف کے اوپر سے چکر لگانا ضروری ہے۔ کیونکہ حطیم، کعبہ کا حصہ ہے۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓنے خانہ کعبہ کی ازسرِ نو تعمیر کرائی تھی۔ یہ تعمیر ابراہیمی بنیادوں پر کی گئی۔ حطیم بھی کعبہ کے اندر آگیالیکن جب حجاج بن یوسف نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو شہید کرادیاتب خانہ کعبہ کی ابراہیمی بنیادوں کو ختم کرکے اس کی تعمیر پھر انہیں بنیادوں پر کرادی جیسی کفّارِ مکّہ نے حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے کی تھی۔ یوں حطیم اور میزاب الرحمت پھر دیوارِ کعبہ سے باہر ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔خدا کے بارے میں دوبڑے تصوّر مختلف صورتوں میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ ایک تصوّر انوارپرستی کا اور دوسرا ارض پرستی کا۔ ارض پرستی سے زمین کے درختوں، پہاڑوں، دریاؤں، بعض جانوروں اور بتوں کو مقدّس ماناگیااور انوار پرستی سے سورج، چاند، ستاروں اور آگ کی پرستش کو رواج ملا۔ اصل میں تو یہ سارے تصورات اور عقائد خالقِ کائنات کی جستجو کے سفر ہیں۔ بس ؂ ’سفرِ ہر کس بقدرِ ہمت اوست‘۔ اسلام نے اللہ کو آسمانوں اور زمین کا نورکہہ کر اسے روشنی کے عام مظاہر سے ارفع قرار دیا دوسری طرف بت پرستی کو ختم کرکے خانہ کعبہ کو زمینی مرکز بنادیایوں اسلام نے انوارپرستی اور ارض پرستی کے مروجہ تصورات سے ہٹ کر ایسا معتدل تصور عطاکیا جو خالق کائنات کے بارے میں ہماری بہتر رہنمائی کرتاہے۔
۔۔۔ ۔۔۔اسلام سے پہلے مکہ میں حنفاکاایک فرقہ موجود تھا۔ یہ بت پرستی اور قبرپرستی نہیں کرتاتھاممکن ہے ابراہیمی حدود کعبہ سے حطیم شریف کو باربار باہر کرنے میں شعوری یا لاشعوری طورپر یہ سبب بھی رہاہوکہ مذکورہ قبروں کے تعویذ ختم کردیئے جانے کے باوجود بعض ’’موحد‘‘ قسم کے قبائل کو قبرپرستی کا احساس ستاتارہاہو۔ فکر کی متضاد لہریں بھی تو ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں اور غیر محسوس طریقے سے ایک ساتھ ارتقائی سفر بھی کرتی چلی جاتی ہیں۔
حطیم کو کعبہ کی دیوار کے اندر رکھاجائے یا باہر..... وہ بہرحال کعبہ شریف کا حصہ ہے۔ اس حصے میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کے مدفون ہونے سے کم از کم مجھے تو کوئی الجھن محسوس نہیں ہوتی کیونکہ میں جب کعبہ کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتاہوں تو میرا سجدہ اس عمارت کے لئے نہیں بلکہ خدا کے حکم کی فرمانبرداری کے لئے ہوتاہے۔ آدم علیہ السلام کو فرشتوں کاسجدہ کرنا بھی درحقیقت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں تھا بلکہ خدا کے حکم کو سجدہ کرناتھا۔ اسی طرح کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اور سجدہ ریز ہونا، نہ حقیقتاً بی بی ہاجرہ کی قبر کے لئے ہے، نہ حضرت اسماعیل کی قبر کے لئے ہے اور نہ ہی کسی اور کے لئے.... یہ تو بس خدا کے حکم کو سجدہ ہے اور اس کے حکم کی حکمتوں کوکون جان سکتاہے۔
۔۔۔۔۔ دیدارِ کعبہ کے دوران ہی تہجد کی اذان ہوئی۔ ہم نے تہجد کی نماز پڑھی پھر فجر کی اذان ہوئی، نماز باجماعت اداکی۔ صبح ۷بجے تک ان عبادات سے فارغ ہوکر اپنے کمرہ میں واپس آگئے۔ کل دن بھر کے سفر اور رات بھر کی بیداری کے باوجود نیند کاغلبہ نہیں تھاپھر بھی سونے کی کوشش کی۔ سات سے گیارہ بجے تک تھوڑی بہت نیند پوری کی۔ جاگ کر کھانے کا انتظام کیا، کھانا کھایا اور تیارہوکر ظہر کی نماز کے لئے حرم شریف چلے گئے۔ اس بار میں ’’باب الملک فہد‘‘ کے بالکل سیدھ والے رستے سے گذرکرمطاف سے باہر کی ایک صف پر قبلہ رُو تھا۔ اب صرف خانہ کعبہ کی سامنے والی دیوار روبرو تھی۔ اس کے دائیں جانب رُکن یمانی اور بائیں جانب رُکن شامی اور حطیم تھا۔ حطیم کی جانب والی دیوار یہاں سے دکھائی نہیں دے رہی تھی البتہ پرنالہ بڑی حد تک دکھائی دے رہاتھا۔ دمکتے ہوئے سنہری پرنالے نے میری آنکھوں میں چمک پیداکردی تھی۔ ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہم لوگوں نے تھوڑی سی خریداری کی۔ مبارکہ نے جرمنی کے موسم کے مطابق گرم اوورکوٹ پہناتھاجسے میقات پہنچنے تک اتارناپڑگیا۔ میں نے اسے اپنی لمبی جیکٹ دے دی۔ یہ زیادہ گرم نہیں تھی لیکن مکّہ کے موسم کے لحاظ سے یہ بھی خاصی گرم تھی۔ چنانچہ مارکیٹ میں جاکرپہلے تو مبارکہ کے لئے ایک برقعہ خریدا۔ مبارکہ کو برقعہ اتنا اچھالگاکہ اس نے رضوانہ کے لئے بھی خرید لیا۔ بعض دوسرے عزیزوں کے لئے بھی مختلف تحائف اور تبرکات لئے۔
آج( ۲؍دسمبر۱۹۹۶ء کو) مکہ میں جرمن مارک کی قیمت ۴۱.۲ریال تھی۔
***

دوسرا عمرہ

دوسرا عمرہ

۔۔۔۔۔ ۔۔یکم اور ۲؍دسمبرکی درمیانی رات دیر گئے ہم نے عمرہ کرلیاتھا۔ ارادہ یہ تھاکہ جتنے دن مکہ شریف میں قیام رہے گا، روزانہ عمرہ کی سعادت حاصل کریں گے۔ ہر نئے عمرے کے لئے غسل ضروری ہے جو مقرر کردہ مقام پر ہی کیاجاسکتاہے۔ مکہ میں قیام کرنے کی وجہ سے ہمیں میقات کی طرف جانے کی بجائے تنعیم تک جاناتھا۔ یہ جگہ مسجد عائشہ کے نام سے زیادہ مشہور ہے۔ میں نے سوچا احرام ساتھ لے لیتاہوں۔ عصر کی نماز اداکرکے مسجد عائشہ کی طرف روانہ ہوجائیں گے اور مغرب کے وقت تک واپس بھی آجائیں گے۔سو عصر کی نماز کی ادائیگی کے لئے جب ’’باب الملک فہد‘‘ سے گذرنے لگے تو گیٹ پر موجود سرکاری اہلکارنے اعتراض کیا کہ آپ احرام ہاتھ میں لے کر اندر نہیں جاسکتے۔ اہل کارکافرمان درست تھالیکن لہجہ درست نہیں تھا۔ بائیں طرف تھوڑا سا چل کر ’’باب العمرہ‘‘ کی طرف گئے تو وہاں کے اہلکارنے نہ صرف شائستگی سے بات کی بلکہ مسئلے کا حل بھی نکال لیا۔ میرا احرام قریب کی ایک جگہ پر رکھواکرمجھے تسلی دی کہ اسے یہاں سے کوئی نہیں لے جائے گا.... اور واقعی ایسا ہی ہوا.... ’’باب العمرہ‘‘‘ سے اندرجاکر میں نے حطیم کے عین سامنے جگہ حاصل کی۔ حطیم کے اندر تو نوافل ادا کرچکاتھا اب اسے رُکن شامی سے رُکن عراقی تک والی دیوار اور دیوار پر لگے سنہری پرنالے کے جلو میں اس پورے منظر کے ساتھ اور تھوڑے سے فاصلے سے دیکھنا چاہتاتھا۔سو دیکھااور جی بھر کے دیکھا۔
۔۔ ۔۔۔۔موجودہ کعبہ مربع شکل میں ہے جبکہ حضرت ابراہیم والی بنیادوں کے مطابق حطیم کو اس میں شامل کرکے دیکھیں تو پھر یہ ایک حد تک مستطیل بن جاتاہے ویسے حطیم کی دیوار دونوں طرف سے تھوڑی سی گولائی میں ہے۔ یہ دیوار اونچائی میں قدِ آدم سے تھوڑی سی کم ہے۔ مجھے یاد پڑتاہے کہ تاریخ تعمیر کعبہ میں کہیں یہ بھی پڑھاتھاکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے جب کعبہ کی تعمیر کی تھی تو اس کی اونچائی بھی لگ بھگ اتنی ہی تھی جتنی اب حطیم کی دیوار کی ہے۔ تب چھت بھی نہیں ڈالی گئی تھی۔ باقی اضافے وقت کے ساتھ ساتھ بعد میں ہوتے گئے۔
۔۔۔۔ ۔۔عصرکی نماز کی ادائیگی کے بعد مبارکہ اور میں مسجد عائشہ کے لئے روانہ ہوئے۔ حرم شریف کے قریب ہی بسوں کااڈہ ہے۔ یہاں سے مختلف اطراف میں بسیں جاتی ہیں۔ ہم مسجد عائشہ جانے والی بس میں بیٹھے اور آخری اسٹاپ پر اترگئے۔ مسجد خاصی خوبصورت تھی۔ نہانے کے لئے سرکاری طورپر اچھے انتظامات تھے۔ میں نہاکے، احرام باندھ کے باہر نکلا۔ مباکہ مجھ سے پہلے ہی مسجد کے خواتین والے حصہ میں جاچکی تھی۔ میں نے مسجد میں دونفل اداکئے، عمرہ کی نیت کی۔ یہ عمرہ میں اپنے اباجی کی طرف سے کرنے جارہاتھا۔ تلبیہ شروع کی۔ مسجد سے باہر آیاتو مبارکہ باہر منتظر کھڑی تھی۔ مسجد عائشہ سے حرم شریف آئے۔ اس بار ’’باب النبی‘‘ سے گذر کر حرم شریف میں داخل ہوئے۔ آگے جاکر تھوڑا سا بائیں ہاتھ کو ہوئے تو ’’باب عباس‘‘ کی سیدھ میں آگئے۔ اسی سیدھ میں کعبہ شریف کی طرف بڑھتے گئے۔ اب کعبہ شریف کی جو دیوار ہمارے سامنے تھی اس کے دائیں طرف حطیم اور بائیں طرف حجراسود ہے۔ حجراسود سے تھوڑا سا دائیں جانب خانہ کعبہ کا دروازہ ہے۔ درِ کعبہ کو ملتزم شریف کہتے ہیں۔ طواف کے سات چکر پورے کرنے کے بعد یہاں دو نفل پڑھنا باعثِ ثواب ہے۔ ہجومِ عاشقاں کے باعث نفل پڑھنے کے لئے جگہ نہ بن سکے تو دروازے کے سامنے کھڑے ہوکر بعض مخصوص دعاؤں کے ساتھ اپنی دلی دعائیں اپنی زبان میں بارگاہ خداوندی میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ کل میں نے ہمت کرکے درِ کعبہ کے سامنے دو نفل ادا کرلئے تھے۔ پھر کوشش کی کہ دروازے کی چوکھٹ تک رسائی حاصل کرسکوں، لیکن وہاں تو پہلے ہی سے انبوہِ عاشقاں تھا۔ بہت سے لوگ درِ کعبہ کی چوکھٹ سے لپٹے ہوئے، چمٹے ہوئے گریہ وزاری میں مصرو ف تھے۔
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم
الٹا  پھر  آئے  درِ کعبہ  اگر  وا   نہ     ہوا
۔۔۔۔۔۔مجھے درِ کعبہ کے واہونے کا ظاہری طورپرکوئی انتظارنہیں تھاکہ میرے باطن میں کعبہ کا دروازہ آہستہ آہستہ کھلنے لگاتھا۔ سو میں نے الٹا پھر آنے کی بجائے ملتزم کے سامنے دعاکے لئے ہاتھ اٹھالئے تھے۔ جو کچھ مانگنا تھا، مانگتا چلاگیاتھا۔ یہاں سے پھر مقام ابراہیم کے سامنے آیاتھا، اس کے قریب دو نفل اداکئے تھے، دعائیں کی تھیں لیکن یہ تو کل کی بات ہے.... اب کہ ۲؍دسمبر اور ۳؍دسمبر کی درمیانی رات تھی۔ مجھے مقامِ ابراہیم کے سامنے نماز مغرب کی ادائیگی کی توفیق ملی۔ کعبہ کے اس رُخ کے دیدار کی سعادت دیر تک نصیب ہوتی رہی۔ نماز عشاء کی ادائیگی کے لئے میں نے خصوصی طورپر کوہ صفاکی طرف جانے والے گیٹ ’’الصفا‘‘ والی سائڈ سے جگہ منتخب کی۔ یہاں سے کعبہ کی جو دیوار سامنے تھی اس کے دائیں جانب کونے میں حجراسود اور بائیں جانب رکن یمانی ہے۔ یہ دیوار اس لحاظ سے اہم ہے کہ طوافِ کعبہ کا آغاز اس کے سائے میں شروع ہوتاہے۔اس کے دائیں کونے میں حجراسود سے طواف کا آغاز ہوتاہے اور اسی جگہ پر پہنچ کر اختتام ہوتاہے۔ گویا آغاز بھی وہی تھااور اختتام بھی وہی تھا۔ وہی اوّل، وہی آخر....طواف کے ہر چکر پر حجرِ اسود کے مقام سے ایک مخصوص دعاپڑھنا شروع کی جاتی ہے اور رُکن یمانی تک پہنچنے تک اسے مکمل کرناہوتاہے۔ لیکن میں عموماً مقام ابراہیم تک عربی دعا پڑھ لیتاتھا، پھر حطیم کے نصف حصہ تک پہنچتے پہنچتے دعاکا اُردو ترجمہ بھی پڑھ لیتا تھااور باقی وقت اپنی زبان میں اپنی دعائیں کرتاہوا رُکن یمانی تک پہنچتاتھا۔ وہاں سے حجرِ اسود تک پھر ایک اور مخصوص دعا پڑھنی ہوتی ہے۔ اس بار طوافِ کعبہ کے ساتوں چکروں میں مجھے اباجی کی حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت کے جذبات باربار یاد آتے رہے۔ مبارکہ آج کاعمرہ اپنی والدہ مرحومہ یعنی میری ممانی مجیدہ کی طرف سے کررہی تھی اور میں یہ عمرہ ابّاجی کی طرف سے کررہاتھا۔ پہلے تو اس سوچ کے ساتھ شدّت سے دل بھر آیاکہ آج اباجی خود زندہ ہوتے اور ہم باپ، بیٹے ایک ساتھ یہ سعادت حاصل کررہے ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ لیکن پھر یہ درداباجی کی مغفرت کے لئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی شکر گذاری میں ڈھل گیاکہ مجھ جیسے ملامتی شخص کو نہ صرف اس ارضِ مقدّس میں حاضری کی سعادت بخشی بلکہ اباجی کی دیرینہ آرزو اُن کی وفات کے باوجود میرے ذریعے سے پوری کرادی۔ درد اور شکر گزاری کی لہریں پھر بھی ایک دوسرے میں مدغم ہوتی رہیں۔ اس سے عمرہ کے سرور میں اضافہ ہوا۔ طواف سے سعی تک تمام مراحل میں یہ سرور قائم رہا۔ اب سوچتاہوں کہ اباجی کی طرف سے وہ عمرہ نہ کرتا تو اس انوکھی لذّت سے آشناہی نہ ہوتاجو اس عمرہ کے دوران نصیب ہوئی۔
رات ساڑھے گیارہ بجے ہم اپنے کمرے میں پہنچے۔ وہاں سے برتن لے کر میں آبِ زم زم لینے چلاگیا۔ جب سے ’’بئر زم زم‘‘ کے الفاظ لکھے دیکھے ہیں آبِ زم زم پیتے ہوئے تبرّک کے احساس کے ساتھ ایک اشتیاق سا بھی ہونے لگاتھا۔ سوابارہ بجے تک آبِ زم زم لے کر لوٹا تو ۳؍دسمبر کی تاریخ شروع ہوچکی تھی۔ رات ایک بجے کے قریب آنکھ لگی۔
***

تیسرا عمرہ

تیسرا عمرہ

۔۔۔۔۔۔فرطِ شوق سے پونے چار بجے ہی آنکھ کھل گئی۔میں نے اچھی طرح سے غسل کیا۔ پھر مبارکہ کو جگایا.... جب ہم لوگ حرم شریف کے قریب پہنچے تہجد کی اذان ہونے لگی۔ نماز کی ادائیگی کے وقت خواتین کو آگے نہیں آنے دیاجاتا۔ سو مبارکہ رستے میں خواتین کے ایک حصے میں چلی گئی اور میں نے حطیم کے سامنے ایک جگہ منتخب کی۔ ایک بار پھر میں حطیم کے روبرو تھا۔ حطیم کی چھوٹی لیکن خوبصورت گولائی والی دیوار کے دائیں بائیں کبھی ایک جنگلہ ساسجادیاجاتاہے، کبھی اسے ہٹادیاجاتاہے۔ دائیں، بائیں اور درمیان میں بجلی کے تین بڑے سے چراغ روشن ہیں۔ نماز تہجد سے نماز فجر کے درمیانی عرصہ میں دیدار کعبہ کے ساتھ نوافل اور دعاؤں کاسلسلہ جاری رہا۔ فجر کی نماز کے بعد ہم لوگ اپنے کمرے میں واپس آگئے۔ ناشتہ کیا اور پھر بے سُدھ ہوکر سوگئے۔ پونے بارہ بجے کے قریب بیدارہوئے اور ظہر کی نماز کے لئے جانے کی تیاری کرنے لگے۔ اسی دوران ظہر کی اذان ہونے لگی۔ ہم جب حرم شریف کے قریب پہنچے نماز کی تکبیر شروع ہوگئی۔ بس پھر جہاں جگہ ملی نماز اداکرلی۔ نماز کے بعد ہم ’’باب مروہ‘‘ سے باہر کی طرف مارکیٹ میں چلے گئے۔ وہاں تھوڑی بہت خریداری کی۔ بیوی ساتھ ہو تو جتنا خرچہ بھی ہوجائے خریداری ’’تھوڑی بہت‘‘ ہی کہلاتی ہے۔ خریداری کے بعد وہیں ایک پاکستانی ہوٹل میں دوپہرکا کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد مبارکہ حرم شریف میں چلی گئی۔ میں سارے سامان سمیت اپنے ہوٹل والے کمرہ میں گیا۔ وہاں سارا سامان رکھااور پھر بھاگم بھاگ واپس حرم شریف پہنچا۔ عصر کی نماز میں ابھی پندرہ بیس منٹ کی دیر تھی۔ میں ’’باب السلام‘‘ سے اندر داخل ہوا۔ اس رستے سے خانہ کعبہ کی دو دیواریں صاف نظر آتی ہیں۔ دائیں طرف رکن شامی سے رکن عراقی تک والی دیوار اور حطیم۔ بائیں طرف ملتزم(درِ کعبہ) والی دیوار.... ساتھ ہی کونے میں حجراسود ہے۔ ملتزم کے سامنے مقام ابراہیم... ’’باب السلام‘‘ کی گذرگاہ تو بڑی برکتوں والی نکلی۔ ایک نظر میں اتنے جہان دکھادیئے۔ میں اس گذرگاہ سے صحنِ کعبہ کے قریب والی سیڑھیوں تک آیا۔ پھر وہیں بائیں جانب ایک صف میں بیٹھ گیا۔ تھوڑا سا بائیں جانب ہوکر بیٹھنے کے نتیجہ میں باقی سارے منظر تو ٹھیک دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن حجراسود کاکونہ مقام ابراہیم کی اوٹ میں آگیاتھا۔ اچانک ایک صاحب میرے آگے آکر نماز پڑھنے لگے۔ عصر کے وقت کا سورج چمک رہاتھا۔ ان صاحب کا احرام ہلکے لٹھے کاتھا۔ لٹھامیں نے احتراماً لکھ دیاہے آپ اسے تھوڑی سی موٹی ململ سمجھ لیں تو صورتحال بہتر طورپرواضح ہوسکے گی۔ کچھ احرام کے کپڑے کی باریکی اور نزاکت تھی، کچھ سورج کی کرنوں نے شوخی کی جو اُن کے احرام سے چھن چھن کر باہر آنا چاہتی تھی۔موصوف کے قیام اور رکوع تک تو پھر بھی معاملہ غنیمت تھا لیکن جب وہ سجدہ میں گئے تو کپڑے کی نزاکت اور سورج کی سامنے سے پڑتی ہوئی کرنوں کی شوخی نے عجب گل کھلادیا۔ ستم بالائے ستم سجدۂ شوق خاصا طویل ہوگیا۔ خداشاہد ہے کہ طواف سے سعی تک تمام مرحلوں میں خواتین کی موجودگی نے کبھی بھی میرے ارتکاز میں خلل پیدا نہیں کیا لیکن ان صاحب کے اس سجدہ کے منظرنے میرے دھیان کو توڑ کر مجھے کراہت آمیز بیزاری کی حد تک پہنچادیا۔ میں نے ذہن کو حضرت لوط علیہ السلام کی نافرمان قوم کے انجام کی طرف لے جانے کی کوشش کی لیکن اس میں مغرب کا جدید ’’گے کلچر‘‘ گھس آیا۔ خدا خدا کرکے ان صاحب کی نماز مکمل ہوئی اور مجھے اس اذیت سے نجات ملی۔ تب ہی مجھے خیال آیاکہ میرا احرام تولیے جیسے کپڑے کاہے اور میں نے خداکالاکھ لاکھ شکر اداکیا۔
۔۔۔۔ ۔۔اب مجھے یادآرہاہے کہ زمانۂ جاہلیت میں جب کفارمکہ طواف کعبہ کرتے تھے تو چند قبیلوں کو چھوڑ کر زیادہ تر خواتین و حضرات بالکل برہنہ ہوکر طواف کیاکرتے تھے۔ اسے آپ جہالت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اُس زمانے کے لحاظ سے اس کے دوجواز میری سمجھ میں آتے ہیں۔ ہوسکتاہے وہ لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ خدا کی نظر تو ہمارے پاتال تک جاتی ہے اور جب ہم عبادت کے ارفع ترین مقام پر آئے ہیں تو خداکے سامنے کسی ظاہری لبا س کی ضرورت نہیں ہے۔جیسے اس نے ہمیں اس دنیا میں پیداکیا ویسے ہی ہم اس کی بارگاہ میں حاضر ہورہے ہیں۔ او ریہ بھی ہوسکتاہے کہ برہنہ ہوکر طواف کعبہ کرنے کی صورت میں وہ لوگ اپنی نفس کشی کا ثبوت دیتے ہوں۔ اسلام نے برہنہ ہوکر طواف کرنے کی رسم کو ختم کردیا۔ اسلام میں احرام کی اہمیت پر غور کرتاہوں تو اس کے بعض روحانی اور ثقافتی پہلو سامنے آتے ہیں۔ احرام کاایک حوالہ یہ بنتاہے کہ انسان کو کفن کی چادروں کااحساس رہے۔موت ہمارا انجام ہے۔ مرنے کے بعد کفن میں اگلے جہان جاناہے اور کچھ بھی ساتھ نہیں لے جاناہے۔ یہ احساس زندہ رہے تو معاشرے سے بہت سی برائیاں از خود ختم ہوجاتی ہیں.... احرام سے یہ تاثر بھی بنتاہے کہ ہماری اب تک کی پہلی زندگی کے سارے گناہ خدانے بخش دیئے ہیں۔ اب ہم ایک نیا جنم لے رہے ہیں اور آئندہ ہم نے گناہوں سے پاک زندگی بسرکرنی ہے.... احرام کو ارضِ حجاز کے قدیم ثقافتی حوالے سے دیکھیں تو اس کا اَن سِلا ہونا،مکمل برہنگی اور مکمل لباس کی درمیانی کڑی قرار پاتاہے۔ اسلام نے مکمل برہنگی کی ممانعت کردی لیکن مکمل لباس پہننے سے بھی روک دیا اور دونوں کے درمیان والے رستے یعنی اَن سِلے احرام کی چادروں کو پسند فرمایا۔ میں سمجھتاہوں کہ اسلام نے بشری کمزوریوں کا احساس کیاہے اور میرے جیسے گناہ گاروں کو کسی نفسانی آزمائش اور ابتلا میں ڈالے بغیر روحانی لحاظ سے خداکے ساتھ تعلق کواعلیٰ سطح تک لے جانے کاامکانی راستہ دکھادیاہے۔
نماز عصر کی ادائیگی کے بعد ہم پھر خریداری کے لئے نکل گئے۔ دوپہر کو زیادہ تر زیورات کی خریداری کی تھی۔ اب کپڑوں کی خریداری کا موسم تھا۔ مغرب کی نماز سے پہلے مجھے پھر اپنے کمرے میں سامان چھوڑنے کے لئے آناپڑا۔مبارکہ حرم شریف جاچکی تھی۔ نماز مغرب کے بعد ہمیں حجراسود کی سیدھ والی پٹی پر ملناتھامگر مغرب تک زائرین کا اتنازیادہ رش ہوگیاکہ مجھے اور مبارکہ کو ایک دوسرے تک پہنچنے میں خاصاوقت لگ گیا۔ہم پھر بذریعہ بس مسجد عائشہ کے لئے روانہ ہوئے۔ وہاں عمرہ کے لئے غسل کیا، احرام باندھا، دو نفل پڑھے، نیت عمرہ کی اور تلبیہ پڑھتے ہوئے پھر بذریعہ بس حرم شریف آگئے۔ آج مبارکہ نے اپنے والد اور میرے ماموں ناصر کی طرف سے عمرہ کرناتھااور میں نے اپنی امی جی کی طرف سے... امی جی اور ماموں ناصر میں گہری محبت تھی۔ شاید یہ اسی محبت کا اثرتھاکہ میرے اور مبارکہ کے عمرے دونوں بہن بھائی کے لئے ایک ہی وقت میں ہورہے تھے، حالانکہ ہم نے اس سلسلے میں پہلے سے کچھ بھی طے نہیں کیاتھا۔
۔۔۔۔۔ ۔طواف اور سعی کے دوران امی جی شدت سے یادآتی رہیں۔ میں ایک عرصہ تک یہی سمجھتارہاہوں کہ دنیا کی ساری مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ لیکن دنیاکو دھیان سے دیکھاتو لوگو ں کی ناگنوں اور ڈائنوں جیسی مائیں بھی دیکھیں۔ اپنی اولاد کے گھروں کو خود اجاڑ دینے والی مائیں، بہو دشمنی میں بیٹوں کی زندگی میں زہر گھول دینے والی مائیں اور حرص وہوس کی ماری، ممتاکے نور سے عاری مائیں۔ جب سے میں نے لوگوں کی ایسی مائیں دیکھی ہیں اپنی والدہ مرحومہ سے میری محبت کا تعلق اور بھی گہرا ہوگیاہے۔ ایسی مائیں بہت کم ہوتی ہیں جو اپنے جذبوں، اپنی خوشیوں اور اپنی خواہشوں کی خاموشی کے ساتھ قربانی دیتی چلی جائیں اور اولاد کو کبھی اشارتاً بھی اس کا احساس نہ دلائیں۔ مجھے ایک طرف امی جی کی محبتوں اور دعاؤں کی پھوار بھگورہی تھی تو دوسری طرف بی بی ہاجرہ کی عظیم ہستی شفقت کے بادل کی طرح میری روح پر چھائی ہوئی تھی۔ طواف اور سعی سے فارغ ہونے کے بعد میں نے مبارکہ کو بتایاکہ حطیم میں ہم پہلے بھی نوافل اداکرچکے ہیں لیکن آج ہم ایک سنّت پر عمل کرنے کا ثواب بھی حاصل کریں گے پھر میں نے اسے بتایاکہ ایک بار حضرت عائشہؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھناچاہتی ہیں تب حضور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں حطیم میں لاتے ہوئے ارشاد فرمایایہاں نماز پڑھ لیں کیونکہ حطیم بھی کعبہ کا حصہ ہے۔ یہ بات کہہ کر حضورؐ نے پھر ارشاد فرمایا: نیا نیا ایمان لانے کے باعث اگر مجھے اپنی قوم کے ابتلاکاڈرنہ ہوتاتو میں کعبہ کی عمارت کو گراکے پھر سے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیرکراتا۔ یہ بتاکر میں نے سنتِ رسولؐ کی پیروی میں مبارکہ کا ہاتھ پکڑا اور اسی طرح اسے لے کر حطیم میں داخل ہوا۔ یہاں ہم نے نوافل اداکئے۔ خدا کے احسانات کی شکرگذاری کی، دلی دعائیں کیں حطیم والی طرف خانہ کعبہ کی جو دیوار ہے اس سے بہت سارے لوگ چمٹے ہوئے تھے۔ یکایک مجھ پر منکشف ہواکہ۔۔۔ یہ سامنے والی دیوار توصرف ظاہری پردہ ہے وگرنہ میں جو حطیم میں بیٹھاہواہوں در حقیقت خانہ کعبہ کے اندر ہی بیٹھا ہواہوں۔ عجیب لذّت آفریں اسرار تھا کہ میں بیک وقت کعبہ کے اندر بھی تھا اور باہر بھی۔ یہ داخلیت اور خارجیت کی بحث تو بس ایسے ہی ہے۔ اس انوکھے تجربے نے مجھے احساس دلایاکہ ہمارا باہر بھی ہمارے اندرکا ایک حصہ ہے۔ لیکن پھر اسی بھید کاایک اور مرحلہ بھی مجھ پر منکشف ہوا۔
ظاہر،باطن عین ایانی، ہُوہُوپیاسنیوے ہوُ
سلطان باہوکے اس عارفانہ تجربے جیسی ہی کوئی بات تھی لیکن میرے لئے ناقابلِ بیان ہے۔
۔ ۔۔۔۔۔حطیم سے باہر آئے تو اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے مبارکہ نے کہا حضرت عائشہؓ کی حطیم میں نماز پڑھنے والی روایت سے مجھے یاد آیاہے کہ جب حجاج بن یوسف نے کعبہ کی ابراہیمی بنیادوں والی عمارت کو گراکر اسے پھر موجودہ بنیادوں پر تعمیر کرادیاتب کسی نے حجاج کو اس روایت سے آگاہ کیا۔ تب حجاج بن یوسف نے افسوس کیا اور کہاکہ مجھے پہلے سے اس کا علم ہوتا تو عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر کرائی ہوئی ابراہیمی بنیادوں کو ہرگز نہیں چھیڑتا، ویسے ہی رہنے دیتا۔ مبارکہ کی اس بات کے جواب میں تب میں نے کہاکہ حجاج بن یوسف کے سامنے مسئلہ ابراہیمی بنیادوں کا تھاہی نہیں۔ ان کے سامنے تو مسئلہ یہ تھاکہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے لئے کوئی یادگارکریڈٹ رہنے دینا ہی نہیں چاہتے تھے۔ان کا مسئلہ ان کے اپنے اقتدارکے استحکام کا تھا۔ اگر حجاج بن یوسف کو حضورؐ کی روایت کااتنا ہی پاس تھاتوایک بار عمارت گرانے کے بعد دوسری باربھی گراکر ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیرکرالینے میں کیا پریشانی تھی؟.....
یہ میرے ذہن تاثر تھالیکن میرا دل مجھے کہہ رہاتھاکہ حجاج کی نیت کا معاملہ خداپر چھوڑو۔ یہ دیکھو کہ اگر حجاج نے ایسانہ کیاہوتاتو تم نے کعبہ کے باہر بیٹھ کر کعبہ کے اندر بیٹھنے کا روحانی تجربہ کیسے کیاہوتا
!
***