Donnerstag, 14. Juli 2011

دیارِ نبی مدینہ منورہ

دیارِ نبی مدینہ منورہ
(مسجد نبوی، روضۂ رسولؐ اور جنت البقیع)

اور اب اپنے کعبہ کے کعبہ کا دیدار کرنے کا ارادہ ہے۔ دربارنبی ﷺکو میں نے کعبہ کا کعبہ غلط نہیں لکھا۔ مولانا احمدرضاخاں بریلوی نے اپنی ایک نعت میں کیا خوب کہاہے:


ہم سب کا قبلہ سُوئے کعبہ، سُوئے محمدؐ روئے کعبہ
کعبے کا کعبہ روئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم
یہ شعر مبالغہ آمیز نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے.... یہاں مجھے فتح مکہ کے موقعہ پر ہونے والاایک ایمان افروز واقعہ یادآگیاہے۔ حضرت بلالؓ اذان دینے کے لئے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ گئے اوروہاں سے آنحضرت ﷺسے استفسارکرنے لگے کہ ویسے تو کعبہ کی طرف منہ کر کے اذان دی جاتی ہے لیکن میں تو کعبہ کی چھت پر ہوں۔اب کس طرف منہ کرکے اذان دوں؟آنحضو ر ﷺنے ارشاد فرمایا میری طرف منہ کرکے اذان دو۔ چنانچہ حضرت بلالؓ نے حضوراکرم ﷺ کے روئے انورکی طرف منہ کرکے اذان دی۔
۔۔۔۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت ﷺذاتِ خداوندی کا مظہرتھے۔ خداکوہم اس دنیامیں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔لباس نبوّت کے ذریعے اسے جاناجاسکتاہے۔ یہ مشرکانہ بات نہیں ہے خود قرآن میں متعدد مقامات پر خدا اور رسول میں یگانگت کوواضح کیاگیاہے مثلا:
۱۔ اے رسول جو کنکریاں تونے ماریں ،وہ تونے نہیں ماریں بلکہ خدانے ماریں۔ (سورۃ انفال) ۲۔جن لوگوں نے تمہارے ہاتھ پربیعت کی انہوں نے اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔وہ تمہارا ہاتھ نہیں تھا بلکہ اﷲ کا ہاتھ تھا۔(سورۃ فتح)
۔۔۔۔غالباً اسی آیت کو مدنظر رکھ کر علامہ اقبال نے کہاتھا: ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
اسے محض محاورۃً اور مجازاً کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔ ایک اور واقعہ بھی یاد آگیا۔ عرب بدّو جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور حضور ﷺکے مقام و مرتبہ کا انہیں ٹھیک سے علم نہ تھا۔ حضورؐ کے ساتھ چلتے ہوئے یہ بدُو لوگ حضو ر ﷺکو اپنے بھائی جیسا سمجھتے ہوئے ادب کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے بلکہ حضورﷺکے آگے آگے بھی ہوجایاکرتے تھے۔ تب سورۃالحجرات کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں ’’لاتقدموبین یدی اللہ و رسولہ‘‘کاحکم بھی شامل ہے یعنی مومنو! اللہ اور رسول کے آگے آگے مت چلاکرو.... سورسول کے آگے چلنا، خدا کے آگے چلنا بھی ہے۔ رسول کو دکھ دینے والے خداکودکھ دیتے ہیں حالانکہ خداتودکھ کے احساس ہی سے بے نیاز ہے۔سو یہ اور ایسی دیگر آیات رسول کے بشری اور الوہی دونوں پہلوؤں کو واضح کرتی ہیں اور اس میں کوئی شرک بھی نہیں ہے۔ اس سے بھی آگے چلیں .. . . دن میں پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں۔ نیت نماز کے وقت اپنی تمام توجہ خدائے واحد کی طرف مبذول کرنے کے ساتھ شرک سے اپنی بیزاری کااظہارکیاجاتاہے۔ پھر ہر دورکعت کے بعد بھی اور نماز کی آخری رکعت میں بھی التحیات پڑھی جاتی ہے اور اسی التحیات میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں’السلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ و برکاتہ ‘یانبی! آپ پر سلامتی ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں . ... یہ بالکل خطابیہ الفاظ ہیں۔ براہ راست خطاب.... سوچنے والی بات ہے کہ جس نماز کی نیت کے وقت ہم پوری توجہ خدائے واحد کی طرف مرکوز کرکے ہرشرک سے اپنی بریت کا اقرار کرتے ہیں، اسی نماز میں خداکے رسول سے براہ راست بات کیوں کرنے لگتے ہیں؟..... او رکیا ہمارے کٹٹر قسم کے موحدین کو ان الفاظ کی ادائیگی کرتے وقت کبھی شرک کااحساس ہواہے یانہیں؟
اصل شرک تو کچھ اورہے جس میں بڑے بڑے موحدین بھی ملوث ہیں۔ نص صریح سے ظاہر ہے کہ ایک بڑا شرک فرقہ بازی بھی ہے۔
۲۔جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیااور گروہ در گروہ ہوگئے (اے رسول!) تیرا ان سے کچھ تعلق نہیں ہے(سورۃانعام)
۱۔مشرکوں میں سے مت بنویعنی ان مشرک لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو پراگندہ کردیااور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے مختلف فرقوں میں بٹ گئے اور ہر فرقہ اس خیال سے خوش ہے کہ جو ٹکڑاہم نے لیاہے وہی بہتر ہے(سورۃروم)
۔۔۔ ۔۔۔احادیث کے سلسلے میں میراان لوگوں سے مکمل اتفاق ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی مستند حدیث بھی نص صریح سے ٹکرائے تو اسے رد کردیاجائے اور اگر کوئی ضعیف حدیث بھی قرآن سے مطابقت رکھتی ہے تو اسے قبول کرلیاجائے.... لیکن یہی بات کہنے والے جب مذکورہ نصوصِ صریحہ کے ہوتے ہوئے فرقہ ناجی والی حدیث سے خودکو سچافرقہ بتانے لگتے ہیں تو حیرت ہونے لگتی ہے۔ بعض کاری گر قسم کے فرقوں نے اپنے سابقوں اور لاحقوں سے فرقہ کا لفظ ہٹاکرکوئی اور متبادل لفظ لگالیاہے اور اسی بنیادپرخود کو گروہوں میں شمار نہیں کرتے۔ایسی خوش فہمی پر اب کیاکہاجائے.... شرک کے مسئلے پر یہ بات خاصی طویل ہوگئی ہے جبکہ مجھے یہاں بعض ’’موحدین‘‘ کے کٹٹرپن پر صرف اتنابتاناتھاکہ سب سے بڑاشرک ازروئے قرآن فرقہ بازی ہے او رسارے ’’موحد‘‘ فرقے بھی اس شرک میں مبتلاہیں۔

الصلٰوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
والصلٰوۃ والسلام علیک یا حبیب اللہ
۔۔۔ ۔۔گیارہ بجے کے قریب ہم مدینہ منورّہ کے لئے روانہ ہوئے۔ بس کی سروس اچھی تھی۔ راستے میں نماز اور کھانے کے لئے پڑاؤکیاگیا۔ ۵بجے سے پہلے ہم مدینہ شریف پہنچ گئے۔ پہلے ایک کمرہ کرائے پرحاصل کیا۔ وہاں سامان رکھ کر تازہ دم ہوئے پھر نماز مغرب کے لئے مسجدنبویؐ کی طرف روانہ ہوئے۔ جاتے ہوئے ہم دونوں مسلسل درود شریف پڑھتے رہے۔مسجد نبویؐ میں خواتین کا حصہ الگ ہے،مبارکہ اس طرف چلی گئی اور میں مردانہ حصے کی طرف آگیا۔میرے اندرداخل ہوتے ہی مغرب کی جماعت کھڑی ہوگئی۔ سو قریبی صف ہی میں کھڑے ہوکر نماز شروع کردی۔ نماز کے بعد میں نے قبلہ رُخ آگے بڑھنا شروع کردیا۔سیدھاریاض الجنۃ تک جاپہنچا۔ ریاض الجنۃ مسجد نبوی کاوہ حصہ ہے جو آنحضرت ؐ کے حجرہ مبارک سے منبر شریف تک کاحصہ ہے۔ حضورؐ نے اس حصہ کو جنت کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑاقراردیاہے جس سے اس حصہ زمین کی فضیلت کااندازہ کیاجاسکتاہے۔ میں نے ریاض الجنۃ میں پہلے منبررسولؐ کی طرف دیکھا۔ اس جگہ اب امام مسجد نبوی نماز کی امامت کراتے ہیں۔یہاں قد آدم سے تھوڑی سی زیادہ اونچائی پر چھت ڈال دی گئی ہے۔ امام صاحب چھت پر امامت کرتے ہیں اور نیچے عاشقانِ رسولؐ نماز پڑھتے ہیں۔ ریاض الجنۃ کے سارے حصہ میں سبز قالین بچھاکراس کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ میں ریاض الجنۃ میں پہلے منبررسولؐ کے نیچے نفل پڑھناچاہتاتھامگر وہاں ساری سیٹیں بُک تھیں۔وہاں سے تھوڑا آگے بڑھاتو وہ جگہ آگئی جہاں حضور ﷺ نماز پڑھایاکرتے تھے۔ ایک محراب میں ’’محراب النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے الفاظ لکھے تھے اور اس کے دائیں ستون پر ھذا مصلی رسول اللہ ﷺ تحریر تھا۔ دونوں جگہوں پر نوافل پڑھنے والوں کا اور باری کا انتظارکرنے والوں کا ہجوم تھا۔ میں نے پہلے تو لائن میں لگ کر باری آنے پر نفل پڑھنے کاارادہ کیالیکن جب دیکھاکہ لائن والے دھکم پیل میں پیچھے ہوتے جارہے ہیں تو پھر یہاں بھی حجراسود تک پہنچنے والا فارمولا استعمال کیااور آنحضرت ﷺ کے مقامِ صلوٰت تک رسائی حاصل کرلی۔ یہ جگہ اس طرح بنائی گئی ہے کہ ہمارا سجدہ اس مقام پر ہوپاتاہے جہاں حضورؐ کے پاؤں مبارک ہواکرتے تھے۔ ہجوم عاشقاں کے حال زار کے پیش نظر میں نے صرف دو نفل اداکئے البتہ اس میں بیشتر اہم دلی دعائیں مانگ لیں۔ دن بھر کی مسافرت کے بعد مسجدنبویؐ میں ابھی اتنی حاضری ہی مناسب تھی۔ روضۂ رسولؐ کے روبرو ہونے کے لئے توابھی مجھے خود کوتیارکرناتھا۔ یہاں سے نکل کر باہر آیاتو مباکہ میری منتظر تھی۔ ہم دونوں تھوڑی دیر تک قریبی بازار میں گھومتے رہے۔ عشاء کی اذان ہونے تک پھر مسجد نبویؐ میںآگئے۔ نماز عشاء اداکی۔ پھر اپنے کمرہ میں گئے۔کھانا کھایااور سیر کرنے کے لئے باہر نکل آئے۔سیر کرنے کے بعد اپنے کمرے میں آکرسوگئے۔
۔۔۔۔۔ ۸؍دسمبرکا دن میرے لئے اس لحاظ سے بے حد اہم دن تھاکہ اس دن مجھے روضۂ رسولؐ کے سامنے حاضری دینی تھی۔ نماز فجر کے بعد میں نے ریاض الجنۃ کے استوانہ عائشہ میں بڑی مشکل سے جگہ حاصل کی۔ نوافل اداکئے۔ کثرت سے درود شریف پڑھنے کے بعد خود کو روضۂ رسولؐ پرحاضری دینے کے لئے تیارپایا۔لائن میں جگہ آرام سے مل گئی۔ زیادہ دھکم پیل نہیں ہوئی۔ جالیوں کے سامنے سرکاری اہلکارکھڑے تھے۔ زائرین کو درود و سلام پڑھتے ہوئے بس گذرتے چلے جاناتھا۔ جالی کو احتراماً چھونا بھی منع تھا۔زیارت روضۂ اقدس کے بعد میں قبلہ رُخ ہوکر مڑگیااورپیچھے سے آکر روضۂ اقدس کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ یہاں اور بہت سارے لوگ بھی کھڑے تھے۔ ہمارے اور روضۂ اقدس کے درمیان زائرین کی قطار رواں دواں تھی تاہم اس طرف کھڑے ہوکر دیدارکرتے رہنے کی سہولت ملنا بھی بہت بڑی بات تھی۔ پہلے تو میں نے روضۂ رسولؐ پرپڑھی جانے والی مخصوص دعائیں پڑھیں۔طریق کارکے مطابق ایک بار روضۂ رسولؐ کی طرف منہ کرکے اور قبلہ کی طرف پشت کرکے اور ایک بارقبلہ کی طرف منہ کرکے اور روضۂ اقدس کی طرف پُشت کرکے مخصوص دعائیں پڑھنی ہوتی ہیں۔ ایسا دو دوبار کرناہوتاہے۔ جب میں قبلہ رُخ ہوتاتھاتو میرے سامنے وہ کھڑکی ہوتی تھی جس کی نسبت روایت ہے کہ حضرت جبرائیل یہاں سے گذر کر وحی لاتے تھے۔ ویسے جس حجرہ کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہاں حضورؐ کی حضرت جبرائیل سے ملاقات ہواکرتی تھی، وہ روضۂ رسولؐ کے اندرآگیاہے۔ اسی طرح اسطوانۂ علی اور اسطوانہ وفود... یہ تینوں اسطوانے ریاض الجنت والی سائڈ سے نصف کے لگ بھگ روضۂ اقدس کے اندر ہیں اور نصف کے لگ بھگ باہر ہیں۔ روضۂ اقدس پر مخصوص دعائیں پڑھنے کے بعد میں نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے لئے بھی مخصوص دعائیں پڑھیں پھر جالی کے درمیانے حصے کے سامنے آگیا۔میں نے داتادربار میں، حضرت نظام الدین اولیاکے مزارپراور بابابلھے شاہ سے لے کر اپنے والدین کے مزاروں تک ہمیشہ ہاتھ اٹھاکر دعامانگی ہے۔ والدین کے لئے ان کی مغفرت کی، بزرگوں کے مزارات پر خداسے ان کے درجات کی بلندی کی اور ان کے نیک نقش قدم پرچلنے کی توفیق پانے کی دعائیں کی ہیں۔ یہاں بھی مجھے خداکے پیارے حبیب کے صدقے، اپنی زبان میں خداسے بہت کچھ مانگناتھا۔ جب میں ہراذان کے بعد آنحضرت ﷺ کے لئے مقام محمودکی دعاکرسکتاہوں تو اب یہاں کھڑے ہوکر بھی کرسکتاہوں۔ سو میں نے دعاکے لئے ہاتھ اٹھا لئے۔میں اپنی دعاؤں میں مگن تھا۔جب دعائیں ہو گئیں اور میں نے درودشریف پڑھنا شروع کیا ،تب کسی کے زور سے چلّانے کی آواز آئی۔میں نے دعا کے لئے اٹھے ہوئے ہاتھ اپنے چہرہ پر پھیرے اور دیکھاتوجالیوں کے سامنے کھڑاہواایک پُلسیا مجھ پر برہم ہورہاتھا۔ اس کی آواز خاصی اونچی تھی اور اسی جگہ روضۂ رسول ﷺکی جالی سے اوپرکرکے وہ آیت لکھی ہوئی تھی جس کا ترجمہ یہ ہے :نبیؐ کے سامنے اپنی آواز بلندمت کیاکرو۔ پُلسیئے کی برہمی سے یہ تو اندازہ ہوگیاتھاکہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے کو بھی شرک میں شمارکرلیاگیاہے لیکن وہ کیاکہہ رہاتھایہ سمجھ میں نہیں آیا۔چلیں جو کچھ بھی کہہ رہاتھا عربی شریف میں ہی کہہ رہاتھا۔
۔۔۔۔۔۔میں زیارتِ روضۂ رسولؐ کے بعد باہرآیاتو صبح کے پونے سات بجے تھے۔ مبارکہ عورتوں والے حصے سے ابھی تک باہرنہیں آئی تھی۔ پورے ایک گھنٹہ تک انتظار کرنا پڑا۔اتناطویل انتظاراور پھر وہ بھی بیوی کا.... لیکن اس عمرمیں تو بیوی کا ہی انتظارکیاجاسکتاہے۔ البتہ ایک پریشانی لاحق ہوگئی۔مکہ مکرمہ دسمبرمیں بھی ٹھنڈانہیں لگاتھا۔وہاں کی راتیں اور صبحیں خوشگوارہوتی تھیں۔ میں نے وہیں کے موسم کے حساب سے مدینہ شریف میں بھی صرف سلوارقمیص پہنی تھی۔ قمیص کے نیچے بنیان بھی نہیں تھی۔ ایک تو مدینہ منوّرہ کا موسم مکہ کی نسبت تھوڑاساٹھنڈاتھا۔ پھر صبح کا وقت، لباس میں بے احتیاطی،ستم بالائے ستم اس حالت میں حرم شریف مسجد نبوی کے باہر مبارکہ کاطویل انتظار ... اس ٹھنڈے ٹھار انتظارنے جوانی کی بعض محبتیں یاد دلادیں( ان ادیبوں سے معذرت کے ساتھ جو شاید اپنے نجی تجربوں کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ اردو کے ہر شاعرکی محبت فرضی ہوتی ہے)مسجد النبی کے باہر مبارکہ کا انتظارکرتے ہوئے میں نے ان سارے پیارے لوگو ں کے گھروں کے خوشحال اور آبادرہنے کی دعاکی اور ارادہ کیاکہ ایک بار ان سارے لوگوں کے لئے نوافل پڑھتے ہوئے بھی دعاکروں گا۔ اسی دن ہی اس دعاکی توفیق مل گئی۔ فالحمدللہ۔
۔۔۔۔۔۔مبارکہ سات بج کر پچاس منٹ پر باہرآئی تو پتہ چلاکہ روزانہ سواسات بجے کے قریب خواتین کو روضۂ رسولؐ پر حاضری کا موقعہ دیاجاتاہے۔ اس سلسلے میں عارضی پردے کا انتظام کیاجاتاہے۔ اس بابرکت موقعہ سے فائدہ اٹھاکر مبارکہ بھی روضہ شریف کی زیارت کرآئی تھی لیکن میں تو اس دوران بالکل ہی ٹھنڈاہوگیاتھا۔ جلدی جلدی اپنے کمرہ تک پہنچے۔ ناشتہ کیااور پھر کمبل لے کرسوگیا۔ ٹھنڈ کے باعث کمبل لپیٹنے سے مزے کی نیند آئی۔ تقریباًساڑھے گیارہ بجے آنکھ کھلی تو نماز ظہر کی تیاری کرنے لگے۔ نماز ظہرکے بعد ہم نے جنت البقیع جاناچاہاتوپتہ چلااس وقت گیٹ بندہے۔نماز عصرکے بعد کھلے گا۔ چنانچہ ہم نیچے سے ہی مارکیٹ کی طرف نکل گئے۔وہاں سے مدینہ شریف کے تبرّکات خریدے۔ پھر اپنے کمرہ میں آئے، دوپہرکا کھاناکھایا۔ تھوڑا آرام کیاپھر نماز عصرکے لئے چل پڑے۔ نماز عصر کے بعد جنت البقیع کی طرف گئے تو ابھی بھی گیٹ بندتھا۔ گیٹ سے باہر جنت البقیع کاجوحال دیکھاوہی کافی ہوگیا۔یہاں بھی سرکارنے بلڈوزر چلوادئیے تھے۔ وہ قبرستان جس کے بارے میں یہاں تک کہاگیاہے کہ قیامت کے دن اس قبرستان میں دفن ہونے والے تمام لوگوں کو کسی حساب کتاب کے بغیر بہشت میں ڈال دیاجائے گا۔جس قبرستان میں حضرت میمونہؓ۔ حضرت بی بی فاطمۃ الزہراؓ، حضورؐ کے صاحبزادے حضرت ابراہیمؓ، حضرت عباسؓ، حضرت امام حسنؓ، حضرت بی بی حلیمہ سعدیہؓ، حضرت عثمانؓ، اور ان کی دونوں ازواج مطہرات، حضرت عقیل بن طالب، حضرت علی کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد اور کئی جیّد صحابۂ کرام کے مزارات تھے۔اب ان سب کو بے نام و نشاں کردیاگیاہے۔ جنت المعلیٰ والا حال ہے.... مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس کے مزارکاقیاس کرکے دعاکروں... اباجی والی بات یادآگئی.... میں ماں کی قبربھول گیاہوں قبرستان بہت پھیل گیاہے آخرقبرستان کے مین گیٹ پر ہی دعاکرکے آگیاہوں.... پر یہاں تو قبریں ہی بے نشاں کردی گئی ہیں۔ میں نے سوچا میں بھی مین گیٹ پر کھڑے ہو کر دعاکرلیتاہوں۔ اچانک مین گیٹ سے پرے بائیں جانب مجھے ایک صاحب دکھائی دیئے۔ اپنے لباس سے کوئی ایرانی عالم لگ رہے تھے۔ ان کے قریب گیاتو وہ سامنے کی چند قبروں کو جنگلے میں سے محبت اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ان سے ٹوٹی پھوٹی فاسی میں پوچھایہ کس کامزارہے؟ انہوں نے بتایافاطمہ بنت اسد کا..... یعنی حضرت علیؓ کی والدہ ماجدہ کامزارتھا۔مرتے دم تک آنحضرت ﷺ کا ساتھ دینے والے حضرت ابوطالبؓکی زوجہ محترمہ، ایک عمرتک حضورؐ کی دیکھ ریکھ کرنے والی ان کی چچی، حضرت فاطمہ الزہراؓ کی ساس، حضرت امام حسنؓ، حسینؓ کی دادی اماں.....اتنے معتبررشتوں والی ہستی.... میں نے وہیں دعاکے لئے ہاتھ اٹھالیے... سارے اہل بیت، صحابہ کرام اور بزرگان دین کے نیک نقشِ قدم پرچلنے کی توفیق پانے کی دعاکی۔ سب کے درجات کی بلندی کی دعاکی۔ اور سعودی حکمرانوں کا ’’شرک فوبیا‘‘دور ہونے کے لئے بھی دعاکی۔پھربجھے ہوئے دل کے ساتھ واپسی ہوئی۔
۔۔۔۔۔مسجد نبوی میں داخل ہوکراسطوانہ تہجد میں جگہ بنائی۔ یہاں نفل اداکئے۔ اسی دوران ایک باباجی نے میرے مخصوص اندز میں میرے بائیں طرف بیٹھے صاحب کو تھوڑاسا پرے دھکیلااور مجھے بھی کندھامارا۔ یہ تو بالکل میرے والا اسٹائل تھا۔ میں نے احترام اور محبت کے ساتھ انہیں دیکھااور ان کے لئے مزید جگہ بنادی.... استوانہ تہجدایک چبوترہ کی صورت میں بنایاگیاہے۔ روضۂ رسولؐ کے عین پیچھے۔ اور اسی کی چوڑائی کے برابر سائز... اس جگہ آنحضرتﷺ تہجد کی نماز ادافرمایاکرتے تھے۔ اسطوانہ تہجد کے بعد غالباً ایک دو صفیں زمین پرتھیں اور پھر ایک بڑا سا چبوترہ تھا.... یہ اصحاب صفہ کاچبوترہ تھا... مسجد نبویؐ میں درویشوں ، فقیروں کاڈیرہ.... اسلامی تصوف کے ابتدائی نقوش اصحاب صفہ اور حضرت علیؓ تک ملتے ہیں۔حضرت علیؓ کارمزیہ فرمان انانقطہ تحت البائے... ایک طرح سے اسلامی تصوف کا نقطۂ آغاز ہے۔ تصوف میرا پسندیدہ موضوع ہے۔ صوفیا اور فقیروں سے محبت اور عقیدت رکھتاہوں۔ جبّہ و دستاروالے بہروپیوں کے مقابلہ میں صوفی کی عظمت ا سکی عاجزی اورنیازمندی میں ہوتی ہے جبکہ جبّہ و دستار والی ہستیوں کو اپنی دستارِ فضیلت سنبھالے رکھنے کے لئے ہروقت گردن اکڑاکے رہناپڑتاہے اور پھر انہیں پتہ بھی نہیں چلتاکہ گردن کے ہمہ وقت اکڑاؤ کے باعث تکبّران کی شخصیت کا حصہ بن چکاہے۔ دوسروں کو عاجزی اور انکساری کی تلقین کرنے والے متکبروں کے مقابلہ میں صوفی اور فقیر لوگ خود انکساری اور عاجزی کی جیتی جاگتی مثال ہوتے ہیں۔ ان کی انکساری اور عاجزی انہیں دستاروں والے متکبر سروں کے مقابلہ میں عظیم بنادیتی ہے۔ وہی شاخِ ثمر دار والی مثال...
اسطوانہ تہجد کے بعد میں اصحاب صفہ کے چبوترہ پرگیا۔ اسطوانہ تہجد اور اصحاب صفہ کا چبوترہ.... دونوں چبوترے تین ستونوں کے گھیرے میں ہیں اور دونوں چبوترے روضۂ رسولؐ کی چوڑائی کے برابر روضۂ رسولؐ کی عقبی جانب ا سکی سیدھ میں ہیں۔ میں اصحاب صفہ کے چبوترہ کے درمیانے ستون کی سیدھ میں آخری صف میں جگہ حاصل کرسکا۔ یہاں سے بیٹھ کر اسطوانہ تہجد والے حصے کی چھت کی طرف دیکھاتو دائیں طرف اللہ، بائیں طرف علیؓ اور درمیان میں محمد ﷺ لکھاہوا نظرآیا۔حضور ﷺکے اسمِ گرامی کے ساتھ ایک اور نام درج تھامگر ستون کے آڑے آنے کی وجہ سے وہاں سے دکھائی نہیں دے رہاتھا۔صوفیوں کے ڈیرے پر اللہ، محمدؐ اور علیؓ کے ناموں کاایک ساتھ دکھائی دینا بھی کوئی صوفیانہ رمز ہی تھی۔بعد میں جب میں نے زاویہ تبدیل کرکے دیکھاتوجو نام اوجھل ہورہاتھاحضرت عثمانؓ غنی کا تھا... میں حضرت عثمانؓ سے محبت رکھتاہوں۔ اپنے دوسرے بیٹے کا نام میں نے عثمان حیدر رکھاتھا۔ یہ نام ایک طرح سے شیعہ، سنی اتحاد کی علامت ہے۔ تاہم اصحابِ صفہ کے چبوترہ پر تصوف کے حوالے سے مجھے صرف اللہ، محمدؐ اور علیؓ کے نام دکھائی دیئے تو شاید ایسے ہی دِکھنے چاہئیں تھے کہ اسلامی تصوف کی تکون ان تین ناموں سے ہی بنتی ہے۔ میں نے نماز مغرب اصحاب صفہ کے چبوترہ پر اداکی اور ایک بار پھر روضۂ رسولؐ پر حاضری دینے کے لئے تیارہوگیا۔
روضۂ اقدس کے سامنے سے گذرجانے کے بعد پھر قبلہ رُخ ہوکرواپس آگیا۔ روضہ کی جالی کے سامنے، زائرین کی رواں دواں قطارسے تھوڑا سا پیچھے کھڑے ہوکر میں نے مخصوص دعائیں، مخصوص طریقے سے پڑھیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے لئے مخصوص دعائیں کیں۔ اس کے بعد تھوڑاسامزید پیچھے ہوگیاتاکہ میرے دعاکے لئے اٹھے ہوئے ہاتھ دیکھ کر کوئی پُلسیا پھر شورنہ مچادے۔ اب میں اپنی دعائیں کررہاتھا۔ اپنی زبان میں..... اپنی خواہشیں، آرزوئیں، تمنائیں.....
۔۔۔۔۔۔روضۂ رسولؐ پر حاضری کے بعد سیدھے باہر نکل جائیں تو بیرونی دروازے سے پہلے دائیں جانب کی دیوارپرچند نشانات بنے ہوئے ہیں۔ یہاں حضوراکرم ﷺ کی دیگرازواج مطہرات کے حجرے ہواکرتے تھے۔ روضۂ رسولؐ پر ساری دعائیں کرلینے کے بعد میں نے امہات المومنینؓ کے حجروں کے نشانات کے سامنے کھڑے ہوکردعاکی اور باہر آگیا۔ آدھے گھنٹے کے بعد عشاء کی نماز ہوئی۔عشاء کے بعد ہم دونوں مارکیٹ کی سیر کے لئے نکلے۔ مبارکہ کو بچی ہوئی رقم کی مالیت کااندازہ ہوگیاتھااس لئے اب وہ خود ہی خریداری کرتے وقت احتیاط کررہی تھی۔ مارکیٹ سے باہرآکر اپنے کمرہ میں پہنچے۔رات کا کھاناکھایااور سوگئے.... سونے سے پہلے میں نے ارادہ کیاکہ کل ۹؍دسمبرکی صبح میں نے تین بجے تک جاگ جاناہے۔چنانچہ صبح ٹھیک تین بجے میری آنکھ کھل گئی۔ باتھ روم میں جاکر حوائج ضروریہ سے فارغ ہوا۔ پھر اچھی طرح سے اور جی بھر کے نہایا۔ نئے کپڑے پہنے، مبارکہ کو جگایا۔مبارکہ وضوکرنے سے ہی تازہ دم ہوگئی۔ ہم مسجد نبویؐ کی طرف روانہ ہوئے... مدینہ شریف میں پہلے دن سے ہمارا یہ طریق کاررہاہے کہ جب بھی ہم مسجد نبویؐ کی طرف جاتے۔ مبارکہ زیرلب درود شریف پڑھتی رہتی اور میں بہت ہی دھیمی آواز میں لَے کے ساتھ صلوٰۃ و سلام پڑھتاجاتا:

الصلوٰۃ والسلام علیک۔۔۔۔۔ یا رسول اللہ!
والصلوٰۃ والسلام علیک ۔۔۔۔یا حبیب اللہ!
صلِّ علیٰ نبیّنا۔۔ صلِّ علیٰ محمدٍّ
صلِّ علیٰ شفیعنا۔ صلِّ علیٰ محمدٍّ
ًصلیِ علیٰ حبیبنا۔صلِّ علیٰ محمدّ
صلیِ علیٰ شفیقنا۔ صلِّ علیٰ محمدٍّ
صلیِّ علیٰ کریمنا۔ صلِّ علیٰ محمدٍ
صلِّ علیٰ رحیمنا۔ صلِّ علیٰ محمدٍّ
۔۔ ۔۔۔جتنے صفاتی نام یاد آتے جاتے اسی طرح لَے کے ساتھ پڑھتاجاتا۔ حرم شریف کے قریب پہنچنے تک درود شرف پڑھنا شروع کردیتا۔ لیکن آج یہ صلوٰۃو سلام پڑھتے ہوئے مجھے جو سرور آرہاتھامیں اسے بیان نہیں کرسکتا۔شاید یہ سرور اُس آنے والی گھڑی کا اشارہ تھاجومجھے مسجد نبوی میں پہنچتے ہی نصیب ہونے والی تھی۔ اسطوانہ تہجد پرتو میں پہلے بھی نوافل ادا کرچکاتھا۔ لیکن آج مجھے یہاں نماز تہجد پڑھنے کی توفیق مل رہی تھی۔ تہجد کی نماز پڑھنے کا مزہ آگیا۔ ڈھیرساری دعائیں کرنے کا موقعہ ملااور ایسے لگاجیسے وہ ساری دعائیں بارگاہِ خداوندی میں منظور کرلی گئی ہیں اور اپنے اپنے وقت پر پوری ہوتی چلی جائیں گی۔
سبحان اللہ و بحمدہِ سبحان اللہ العظیم۔ اللہم صلّ علیٰ محمد و آل محمد۔
۔۔۔۔۔اسطوانۂ تہجد سے اٹھ کرمیں ریاض الجنتہ والے حصہ کی طرف آیا مگریہاں تو تل دھرنے کوجگہ نہ تھی۔ کسی لائن اور دھکم پیل والی بات بھی نہیں تھی کہ کوئی چالاکی کام آجاتی۔ انڈونیشین یا ملائیشین دوستوں کاایک گروپ بیٹھاتھا۔ ان سے منّت کرکے تھوڑی سی جگہ مانگی۔ انہیں میری اردوکاتو ایک لفظ بھی سمجھ میں نہیں آیاہوگالیکن لگتاہے میری صورت دیکھ کر ہی انکا دل پسیج گیاہوگاجومفت کی لسی مانگنے والوں جیسا بناہواتھا۔سو اُن اللہ کے بندوں نے خود کو تنگی میں ڈالا اور مجھے کھڑے ہونے کی تھوڑی سی جگہ عنایت کردی۔ یہاں میں نے دودوکرکے چارنفل پڑھے۔ نوافل کے بعد ابھی تسبیح و تحمید کررہاتھاکہ فجر کی اذان ہوگئی۔ ریاض الجنتہ میں نماز فجرکی ادائیگی کی توفیق ملی۔ پھر روضۂ اقدس پر حاضری کے لئے خود کو تیارکرنے کے لئے درود شریف پڑھناشروع کیا۔کافی دیر تک درود شریف پڑھنے کے بعد صلِ علیٰ نبیناکاورد کرتے ہوئے لائن میں کھڑاہوگیا۔ جب روضہ شریف سامنے آیا میں نے صلوٰت و سلام شروع کردیا۔لائن میں آگے تک چلے جانے کے بعد میں پھر حسبِ معمول لائن سے پیچھے ہٹ کر روضہ شریف کی جالی کے سامنے آگیااورروضۂ اقدس پر حاضری کی مخصوص دعائیں پڑھنے لگا۔ طریق کار کے مطابق ایک دعا روضہ کی طرف منہ کرکے( تب پیٹھ قبلہ کی طرف ہوتی ہے) اور ایک دعا قبلہ کی طرف منہ کرکے(تب پیٹھ روضہ کی طرف ہوتی ہے) پڑھنا ہوتی ہے۔ ایسا دودوبارکرناہوتاہے۔ دوسری اور آخری بار جب میں قبلہ رُو ہوکر دعاپڑھ رہاتھا،نورانی چہرے اور سفید لمبی داڑھی والے ایک بزرگ مجھے گستاخِ رسولؐ سمجھ کر برہم ہونے لگے کہ میں روضۂ اقدس کی طرف پشت کئے کھڑاہوں۔ میں اپنی دعامیں مشغول تھااس لئے انہیں سمجھابھی نہیں سکتاتھا۔’’موحدین‘‘ کے نزدیک میری عقیدت شرک ہے اور ایسے بزرگوں کے نزدیک میں بے ادب اور گستاخ تھا۔ میں ادھر جاؤں یا ادھر جاؤں؟..... ان بزرگ نے مجھے دیکھ کرباقاعدہ اعوذباللہ من الشیطن الرجیم کا ورد شروع کردیا۔ شاید بات ان کی بھی ٹھیک تھی۔فرشتوں کے سردارنے جب بڑا موحد بنتے ہوئے، سجدۂ آدم کے خدائی حکم سے منہ پھیر لیاتھاتب اس نے آدم کی نہیں، خدائی حکم کی توہین کی تھی۔ چنانچہ وہ متکبرموحد اپنی سرداری کے باوجود خداکی بارگاہ میں ملعون ٹھہرا۔ میں جب روضۂ اقدس کی جانب پشت کئے قبلہ رو کھڑاتھاتومیری شخصیت کاموحدانہ رخ نمایاں تھا۔ سو اس بزرگ نے اپنی سمجھ کے مطابق مجھے گستاخِ رسولؐ باورکرکے شیطان سمجھ لیا،وہ بھی اپنی جگہ حق بجانب ہوں گے۔ یہ الگ بات کہ تھوڑی دیرکے بعد جب اسی ’’شیطان ‘‘نے پھر قبلہ سے منہ پھیرکرروضۂ اقدس کی جانب کرلیاتووہی بزرگ مجھے سنانے کے لئے ماشاء اللہ، سبحان اللہ کہنے لگ گئے... ان کے چہرے پر خوشی کانور پھیل گیا، جیسے میں گمراہی کے گڑھے سے نکل آیاتھا.... میں نے بے حد مدھم آواز میں خوش الحانی کے ساتھ ’’الصلوٰۃ والسلام‘‘ کاورد شروع کیاپھر ’’صلِ علی نبینا...‘‘ کا ورد کرتارہااور پھر درود شریف پڑھتے ہوئے روضۂ رسولؐ کے قریب والے دروازے سے باہرآگیا...
باہرسے پھر ’’باب جبریل‘‘ کے راستے سے اندر آگیا۔اسطوانۂ تہجد سے روضۂ رسولؐ کی بائیں دیوار کے شروع میں دو چھوٹے سے کمرے دکھائی پڑے تھے۔ ’’باب جبریل‘‘ سے اندرداخل ہوتے ہی وہ دیوار نظر آئی۔ وہاں بہت سارے اہلِ تشیع حضرات کا جمگھٹاساتھا۔ میں نے ایک ایرانی بھائی سے ٹوٹی پھوٹی فارسی میں دریافت کیاکہ یہ کونسی جگہ ہے؟ انہوں نے بتایاکہ یہ حضرت فاطمہ الزہرا ؐ کاحجرہ ہے اور امیر علیہ السلام بھی یہاں قیام فرمایاکرتے تھے۔ اس جگہ کے باہر کچھ بھی تحریر نہیں تھا۔اگر یہ واقعی دختر رسولؐ، خاتونِ جنت، حضرت بی بی فاطمۃ الزہراؓ کاحجرہ مبارک تھاتو یہاں بھی اس کے بارے میں وضاحت سے لکھاجاناچاہیے تھا۔ میں نے وہاں کھڑے ہوکردعاکی پھر اسطوانہ تہجد اور اصحاب صفہ کے چبوترہ کے درمیانی رستے سے گذرتاہواآگے جاکربائیں طرف ریاض الجنتہ کے حصہ کی طرف مڑگیا۔ روضۂ رسولؐ سے منسلک استوانۂ سریر کی زیارت کی۔ یہاں سے حضرت عائشہ صدیقہؓ بیٹھے بیٹھے ہی حضورﷺ کو ان کے حجرہ میں، حالتِ اعتکاف میں، سرپرتیل لگا دیا کرتی تھیں۔اسی کی سیدھ میں آگے اسطوانہ ابی لباب ہے اور اس سے اگلے ستون پر اسطوانۂ عائشہؓ تحریر ہے۔ اسطوانۂ سریر کے بعد روضۂ رسولؐ کی عمارت سے جڑاہوا اسطوانہ حرس ہے، یہ اسطوانہ علیؓ بھی کہلاتاہے۔ اس کے ساتھ ہی اسطوانہ وفود ہے۔ حضوراکرم ﷺ باہر سے آنے والے وفود سے اسی جگہ ملاقات فرمایاکرتے تھے۔ یہاں تک زیارت کرنے کے بعد میں مسجد نبویؐ سے باہر آگیا۔ وہاں سے مبارکہ کو ساتھ لیا اور ہم دونوں درود شریف پڑھتے ہوئے اپنے کمرے میں آگئے۔ یہاں پہلے ناشتہ کیا۔پھر مدینہ منوّرہ کے چند مقدس اور تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے۔

***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen