Donnerstag, 14. Juli 2011

پہلا عمرہ

پہلا عمرہ

۔۔۔۔۔۔روایت ہے کہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعامانگی جائے وہ قبول کرلی جاتی ہے۔ اس چھوٹے سے سفر کے دوران مجھے حضرت علیؓ سے لے کر امام ابو حنیفہؒ تک کئی بزرگان امّت کی باتیں یاد آتی رہیں۔ کہیں میری رہنمائی کرنے والی اور کہیں دل کی گرہیں کھولنے والی باتیں..... مبارکہ کو میں نے بتادیاتھاکہ خانہ کعبہ پر پہلی نظر پڑتے ہی اپنی اہم ترین دلی مراد کے لئے دعامانگ لینا۔ دھڑکتے دلوں کے ساتھ ہم ’’باب الملک فہد‘‘ سے گذرنے لگے۔ جیسے ہی خانہ کعبہ کی پہلی جھلک دکھائی دی میں نے اپنی دعامانگ لی۔ بعدمیں جب میں نے مبارکہ سے پوچھاکہ آپ نے کیادعامانگی تھی؟ تو جواب ملا اپنے بچوں کے لئے دعامانگی تھی۔ پھر مبارکہ نے مجھ سے میری دعاکے بارے میں دریافت کیا۔ میں نے بتایاکہ میں نے صرف اتنی دعامانگی ہے ’’الٰہی! مجھے مستجاب ا لدعوات بنادے‘‘ مبارکہ نے اس کا مطلب پوچھاتو میں نے کہا یوں سمجھ لیں کہ الہٰی میں جب کوئی دعامانگوں اسے قبول کرلیاکرنا..... مبارکہ ہنس پڑی اور کہنے لگی آپ نے اللہ میاں کے ساتھ چالاکی کرلی ہے.... میں نے کہااگر یہ چالاکی ہے تو امام ابو حنیفہؒ بھی بہت پہلے یہی دعامانگ چکے ہیں..... اب میں نے بھی یہ دعامانگ لی ہے تو اس سے کیا فرق پڑتاہے۔

ہم مطاف تک پہنچے تو خانہ کعبہ کاجاہ و جلال اپنااثر دکھانے لگا۔ سامنے رکن یمانی تھا۔ جاتے ہی پہلے اسے بوسہ دیا۔وہاں سے حجراسود کی طرف بڑھے اور مخصوص دعاؤں کے ساتھ وہاں سے طوافِ کعبہ کاآغازکیا۔ پہلے چکر ہی میں نہ صرف میں نے خود حجراسود کو بوسہ دیابلکہ مبارکہ کو بھی کھینچ کھانچ کروہاں تک لایا اور اس نے بھی بوسہ کی سعادت حاصل کرلی۔ اس وقت جب یہ احوال تحریرکررہاہوں تو مجھے حضرت عمرؓ کے الفاظ یادآرہے ہیں جن کامفہوم کچھ یوں تھاکہ اے حجرِاسود! میرے نزدیک تو صرف ایک پتھر ہے لیکن میں تجھے اس لئے بوسہ دے رہاہوں کہ میرے آقاحضرت محمدؐ نے تجھے بوسہ دیاتھا۔ ۔۔۔پر سچی بات ہے اُس وقت مجھے کسی ایسی بات کا ہوش نہ تھا۔ بس گرتے پڑتے، جیسے تیسے منزلِ مقصود تک پہنچنے کی دُھن تھی۔ اس دھن میں مجھ سے تھوڑی سی ’’بئی مانی‘‘ بھی ہوگئی۔ دو تین لائنیں بناکر لوگ باری باری بوسہ دے رہے تھے کہ ان لائنوں میں سے ایک دو اور ضمنی لائنیں نکل آئیں۔ یوں افراتفری سی پیداہوگئی اور مجھے اس افراتفری سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ مل گیا۔ میں اپنے دائیں، بائیں اطراف والوں کو تھوڑا تھوڑا سا دھکیلتاہوا آگے بڑھا اور حجراسود پر سر اورہونٹ رکھ دیئے۔ اُس افراتفری کویادکرتاہوں تو اب اندازہ کرسکتاہوں کہ قیامت کے دن بھی ایسی نفسانفسی ہوگی۔ اگر وہاں بھی میرے جیسے گنہگار اسی طرح منزل مراد پاگئے اور دنیا میں جنت کے ٹھیکیدار اور دعویدار ویسے ہی لائن حاضر رہ گئے تو کیاہوگا۔

رند بخشے گئے قیامت کو
شیخ کہتا رہا حساب حساب
۔۔۔۔۔۔سات چکر پورے کرنے کے بعد خانہ کعبہ کے دروازہ (ملتزم) کے سامنے دو نفل پڑھے۔ مخصوص دعاؤں کے ساتھ اپنی دلی دعائیں کیں، خدا کے بے پایاں احسانات کا شکراداکیا۔ پھر تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر مقامِ ابراہیم کے پاس دونفل اداکئے۔ وہاں بھی دعاؤں کی توفیق ملی۔ پھر آبِ زم زم پیا۔ حجراسود کے سامنے حاضری دی۔ دور سے بوسہ دیا اور ’’الصفا‘‘ گیٹ سے گذرکر کوہ صفا تک پہنچے۔سعی کی نیت کی، تہلیل و تکبیر پڑھی اور سعی شروع کی۔ مروہ کی طرف جاتے ہوئے مجھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کاحضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو اس وادئ غیر ذی ذرع میں چھوڑجانا یاد آیا، پھر بھوک، پیاس اور تنہائی کا خوف.... حضرت اسماعیل کا تڑپنا اور حضرت ہاجرہ کی بے تابی.... کبھی صفا کی چوٹی پر جاکر کسی امدادی قافلے کی راہ دیکھنا اور کبھی دوسری سمت دوڑ کر جانا اور مروہ کی چوٹی سے کسی قافلے کی راہ تکنا.... ہزاروں برس پہلے کے اس مکہ کے ویران بیابان اور حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو درپیش درد ناک اور خوفناک صورتحال کوجیسے لفظوں میں چاہیں بیان کرلیں، اُن دونوں کے دُکھ درد کی کیفیات کی ترجمانی ہوہی نہیں سکتی۔بس ان کیفیتوں کوایک حد تک محسوس کیاجاسکتاہے۔ سعی کے سات چکروں کے دوران مجھے باربار بی بی ہاجرہ کی تڑپ اپنے سینے میں محسوس ہوتی رہی اور اسی حالت میں دل سے دعائیں نکلتی رہیں۔ میرے اندر کے صحرا میں میرے آباء واجداد کے آباء و اجداد کے جدِّ امجدحضرت اسماعیل علیہ السلام کی برکت سے ایک چشمہ پھوٹ پڑاتھا۔ دل کا اور آنکھوں کارابطہ ہوگیاتھا۔ میرے اندرکے صحرا کی سلگتی ہوئی ریت سیراب ہونے لگی تھی۔
۔۔۔ ۔۔۔مردہ کی طرف ساتواں چکر پوراہوتے ہی ہماراعمرہ مکمل ہوگیا(الحمد للہ)۔ عمرہ مکمل ہونے پر کسی سائڈ سے تھوڑے سے بال کاٹنے ہوتے ہیں۔ اسے بال ترشوانے کی علامت کہہ سکتے ہیں۔ وہا ں بعض خواتین اس کارِ خیر کی تکمیل کے لئے ہاتھ میں قینچیاں لئے کھڑی تھیں۔ ان سے قینچی لے کر میں نے مبارکہ کے تھوڑے سے بال کاٹے اور مبارکہ نے ڈھونڈ ڈھانڈ کرمیرے تھوڑے سے بال کاٹے۔ قینچی واپس کرتے وقت اس خاتون کو ایک ریال بطور ہدیہ یا عطیہ نذرکرناپڑا۔ (اگلے دن پھر ہم نے اپنی قینچی خریدلی)۔
۔۔۔۔۔ ۔عمرہ مکمل ہونے کے بعد ہم ’’زم زم کا کنواں‘‘ دیکھنے کے لئے نیچے کی طرف گئے انڈرگراؤنڈ حصے میں چھوٹی چھوٹی ٹونٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ ساتھ ہی زنجیر سے بندھے ہوئے گلاس رکھے تھے۔ یہ ’محبت کی زنجیر‘ تھی تاکہ’ مشترکہ محبت‘ کو کوئی ایک عاشق اپنی ذاتی ملکیت نہ بناسکے۔ ایک کمرہ میں ایسے لگاکہ چشمہ کا منبع وہاں ہوگا۔ وہاں گئے تو بھاری بھرکم پمپ لگے ہوئے دیکھے۔ پہلے تو خیال آیاکہ مشینوں نے دلوں سے بڑھ کر مذہبی شعائرپر بھی قبضہ کرناشروع کردیاہے لیکن پھر سوچاکہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں ہمہ وقت آتے چلے جانے والے لاکھوں پروانوں کو پانی کی فوری اور عمدہ فراہمی کے لئے ایسا کرنابے حد ضروری تھا۔ زم زم کے پمپ کودیکھ کر باہر نکلاتومیں نے باہر سے چشمہ کی طرف جانے والے رستے کی طرف غور سے دیکھا۔ ہائیں۔ یہ سامنے بورڈ پر کیا لکھاہے؟ میں نے عینک اتارکر اس کے شیشوں کو صاف کیا۔ آنکھوں کو مل کر دیکھا۔ کہیں مجھے نشہ تو نہیں ہوگیا۔ وفورِ شوق کا نشہ، جس نے طویل سفر کے بعد آرام کرانے کی بجائے دربارِکعبہ میں لاکھڑاکیاتھا.... بورڈ پر تین لائنوں میں زم زم کا نام لکھاتھا۔

پہلی لائن: بئر زم زم،
دوسری لائن
:Zam Zam ، تیسری لائن:ز م زم کا کنو اں
تیسری لائن میں اردو عبارت دیکھ کر خوشی ہوئی لیکن یہ بعد کی بات ہے۔ میں توبئر زم زم کے الفاظ سے ہی سرور حاصل کرنے لگا تھا۔ ایک دوست یاد آگئے جو کہا کرتے ہیں کہ بئر شراب نہیں ہوتی۔ غالبؔ یادآگئے:
رات پی زم زم پہ مئے اور صبحدم
دھوئے  دھبے  جامۂ  احرام    کے
کہیں ایسانہ ہوکہ جنت میں ملنے والی موعودہ شراباً طہورابھی بئر زم زم سے ملتی جلتی کوئی چیز ہو.... چلیں خیر ہے۔ مجھے اس سے کیا ،یہ توجنتی لوگوں کا مسئلہ ہے۔ میں ازلی گنہگار.... نہ جنت میرا مسئلہ نہ شراباً طہورا کا لالچ.... چشمۂ زم زم کے خواتین والے حصہ سے مبارکہ باہر آئی تو میں نے اسے ’’بئر زم زم‘‘ کے الفاظ دکھائے۔ اس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا ایسی چیزیں کہیں بھی ہوں لپک لپک کر آپ تک پہنچ جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔ ۔ یہاں سے ہم حطیم کعبہ میں گئے۔ وہاں دودونفل اداکئے۔ من کی مرادیں مانگیں۔ پھر حطیم والی طرف سے ’’باب الملک فہد‘‘ کی طرف جانے والے رستے کی ایک صف میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے بیٹھ گئے:
تیرے سامنے بیٹھ کے روناتے دُکھ تینو ں نئیں دَسنا
۔۔۔۔۔ ۔ لگ بھگ دوگھنٹے تک دیدارِ کعبہ سے آنکھیں روشن کرتے رہے۔ اس دوران چند نوافل بھی وقفے وقفے سے پڑھتے رہے۔میرے سامنے کعبہ شریف کی دو دیواریں تھیں۔ ایک حطیم کے طرف والی۔ یہ آدھی سے زیادہ دکھائی دے رہی تھی، دوسری حطیم کے دائیں طرف والی جورُکن شامی سے رُکن یمانی تک بالکل سامنے تھی۔ حجراسود، رُکن عراقی اور ملتزم دوسری طرف تھے۔ حطیم میں میرا اس طرف دھیان نہیں گیاتھالیکن اب یہاں سے بیٹھے ہوئے پہلی بار خانہ کعبہ کا سنہری پرنالہ دکھائی دیا۔ حطیم کی طرف خانہ کعبہ کایہ وہی پرنالہ ہے جس کے نیچے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی بیٹیوں کی قبریں تھیں۔ یہ روایت پرانی عربی کتابوں سے لے کر اُردو میں اہل سنت و الجماعت کے مسلک کی کتابوں تک میں مذکورہے جبکہ ’’موحدین‘‘ قسم کے فرقے اس روایت کی تردید کرتے ہیں یا سکوت اختیار کرتے ہیں۔ اس جگہ کو میزاب الرحمت کہاجاتاہے۔ میزاب ،پرنالے کو کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔ ۔تعمیر کعبہ کی مختلف پرانی تاریخیں میں نے ایک زمانے میں پڑھی تھیں۔ عربی سے اردو میں ترجمہ کی ہوئی طاہرالکردی کی کتاب بھی ان میں شامل تھی اور راولپنڈی سے اہل سنت والوں کی جانب سے شائع کردہ ایک کتاب بھی شامل تھی۔ مختلف تواریخ سے یہ معلوم ہوتاہے کہ جہاں اب خانہ کعبہ ہے یہ دنیامیں خداکاسب سے پہلا گھرتھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں اس گمشدہ مقام کی ازسرِ نو دریافت ہوئی اور تعمیر ہوئی۔ ایک بار جب حضرت ابراہیم مکہ تشریف لائے تو بی بی ہاجرہ فوت ہوچکی تھیں۔ تب حضرت ابراہیم نے حضرت اسماعیل کو ساتھ لے کر ان کی قبر کے گر دایک بڑا سا احاطہ بنادیاجو صرف پتھروں پرپتھررکھ بنایاگیا۔ اس میں گارے کا استعمال نہیں ہوا۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام فوت ہوئے تو انہیں بھی ان کی والدہ ماجدہ کے پہلو میں دفن کیاگیا۔ ان قبروں والی جگہ کو میزاب الرحمت کہاجاتاہے۔ دراصل اسلام سے پہلے بھی کعبہ شریف کی حدود کو کبھی گھٹانے اور کبھی ابراہیمی بنیادوں پر قائم رکھنے کا سلسلہ چلتارہاہے۔ آنحضرت ﷺ کی بعثت سے پہلے، آپؐ کی حیات مبارکہ میں بھی ایک بار تعمیرِ کعبہ ہوئی تھی۔ تب حجرِ اسود کو اصل مقام پر نصب کرنے کا سنگین قبائلی بحران حضور ﷺ نے نہایت عمدگی سے دور کردیاتھا۔ عام روایت ہے کہ تب تعمیرِ کعبہ کے لئے قبائل کے رزقِ حلال سے جو چندہ جمع ہوا تھا، اس سے کعبہ شریف کی دیوار ابراہیمی بنیادوں تک نہیں لے جائی جاسکتی تھی چنانچہ حطیم کا حصہ چھوڑ دیا گیا۔ تاہم تب بھی اور اب بھی طواف کعبہ کے لئے حطیم شریف کے اوپر سے چکر لگانا ضروری ہے۔ کیونکہ حطیم، کعبہ کا حصہ ہے۔حضرت عبداللہ بن زبیرؓنے خانہ کعبہ کی ازسرِ نو تعمیر کرائی تھی۔ یہ تعمیر ابراہیمی بنیادوں پر کی گئی۔ حطیم بھی کعبہ کے اندر آگیالیکن جب حجاج بن یوسف نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو شہید کرادیاتب خانہ کعبہ کی ابراہیمی بنیادوں کو ختم کرکے اس کی تعمیر پھر انہیں بنیادوں پر کرادی جیسی کفّارِ مکّہ نے حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے کی تھی۔ یوں حطیم اور میزاب الرحمت پھر دیوارِ کعبہ سے باہر ہوگئے۔
۔۔۔۔۔۔خدا کے بارے میں دوبڑے تصوّر مختلف صورتوں میں ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ ایک تصوّر انوارپرستی کا اور دوسرا ارض پرستی کا۔ ارض پرستی سے زمین کے درختوں، پہاڑوں، دریاؤں، بعض جانوروں اور بتوں کو مقدّس ماناگیااور انوار پرستی سے سورج، چاند، ستاروں اور آگ کی پرستش کو رواج ملا۔ اصل میں تو یہ سارے تصورات اور عقائد خالقِ کائنات کی جستجو کے سفر ہیں۔ بس ؂ ’سفرِ ہر کس بقدرِ ہمت اوست‘۔ اسلام نے اللہ کو آسمانوں اور زمین کا نورکہہ کر اسے روشنی کے عام مظاہر سے ارفع قرار دیا دوسری طرف بت پرستی کو ختم کرکے خانہ کعبہ کو زمینی مرکز بنادیایوں اسلام نے انوارپرستی اور ارض پرستی کے مروجہ تصورات سے ہٹ کر ایسا معتدل تصور عطاکیا جو خالق کائنات کے بارے میں ہماری بہتر رہنمائی کرتاہے۔
۔۔۔ ۔۔۔اسلام سے پہلے مکہ میں حنفاکاایک فرقہ موجود تھا۔ یہ بت پرستی اور قبرپرستی نہیں کرتاتھاممکن ہے ابراہیمی حدود کعبہ سے حطیم شریف کو باربار باہر کرنے میں شعوری یا لاشعوری طورپر یہ سبب بھی رہاہوکہ مذکورہ قبروں کے تعویذ ختم کردیئے جانے کے باوجود بعض ’’موحد‘‘ قسم کے قبائل کو قبرپرستی کا احساس ستاتارہاہو۔ فکر کی متضاد لہریں بھی تو ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں اور غیر محسوس طریقے سے ایک ساتھ ارتقائی سفر بھی کرتی چلی جاتی ہیں۔
حطیم کو کعبہ کی دیوار کے اندر رکھاجائے یا باہر..... وہ بہرحال کعبہ شریف کا حصہ ہے۔ اس حصے میں حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کے مدفون ہونے سے کم از کم مجھے تو کوئی الجھن محسوس نہیں ہوتی کیونکہ میں جب کعبہ کی طرف منہ کرکے سجدہ کرتاہوں تو میرا سجدہ اس عمارت کے لئے نہیں بلکہ خدا کے حکم کی فرمانبرداری کے لئے ہوتاہے۔ آدم علیہ السلام کو فرشتوں کاسجدہ کرنا بھی درحقیقت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں تھا بلکہ خدا کے حکم کو سجدہ کرناتھا۔ اسی طرح کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اور سجدہ ریز ہونا، نہ حقیقتاً بی بی ہاجرہ کی قبر کے لئے ہے، نہ حضرت اسماعیل کی قبر کے لئے ہے اور نہ ہی کسی اور کے لئے.... یہ تو بس خدا کے حکم کو سجدہ ہے اور اس کے حکم کی حکمتوں کوکون جان سکتاہے۔
۔۔۔۔۔ دیدارِ کعبہ کے دوران ہی تہجد کی اذان ہوئی۔ ہم نے تہجد کی نماز پڑھی پھر فجر کی اذان ہوئی، نماز باجماعت اداکی۔ صبح ۷بجے تک ان عبادات سے فارغ ہوکر اپنے کمرہ میں واپس آگئے۔ کل دن بھر کے سفر اور رات بھر کی بیداری کے باوجود نیند کاغلبہ نہیں تھاپھر بھی سونے کی کوشش کی۔ سات سے گیارہ بجے تک تھوڑی بہت نیند پوری کی۔ جاگ کر کھانے کا انتظام کیا، کھانا کھایا اور تیارہوکر ظہر کی نماز کے لئے حرم شریف چلے گئے۔ اس بار میں ’’باب الملک فہد‘‘ کے بالکل سیدھ والے رستے سے گذرکرمطاف سے باہر کی ایک صف پر قبلہ رُو تھا۔ اب صرف خانہ کعبہ کی سامنے والی دیوار روبرو تھی۔ اس کے دائیں جانب رُکن یمانی اور بائیں جانب رُکن شامی اور حطیم تھا۔ حطیم کی جانب والی دیوار یہاں سے دکھائی نہیں دے رہی تھی البتہ پرنالہ بڑی حد تک دکھائی دے رہاتھا۔ دمکتے ہوئے سنہری پرنالے نے میری آنکھوں میں چمک پیداکردی تھی۔ ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہم لوگوں نے تھوڑی سی خریداری کی۔ مبارکہ نے جرمنی کے موسم کے مطابق گرم اوورکوٹ پہناتھاجسے میقات پہنچنے تک اتارناپڑگیا۔ میں نے اسے اپنی لمبی جیکٹ دے دی۔ یہ زیادہ گرم نہیں تھی لیکن مکّہ کے موسم کے لحاظ سے یہ بھی خاصی گرم تھی۔ چنانچہ مارکیٹ میں جاکرپہلے تو مبارکہ کے لئے ایک برقعہ خریدا۔ مبارکہ کو برقعہ اتنا اچھالگاکہ اس نے رضوانہ کے لئے بھی خرید لیا۔ بعض دوسرے عزیزوں کے لئے بھی مختلف تحائف اور تبرکات لئے۔
آج( ۲؍دسمبر۱۹۹۶ء کو) مکہ میں جرمن مارک کی قیمت ۴۱.۲ریال تھی۔
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen