Donnerstag, 14. Juli 2011

مکہ مکرمہ میں آخری دن اور جرمنی واپسی

مکہ مکرمہ میں آخری دن اور جرمنی واپسی

۔۔۔۔اگلے دن تہجد کی اذان ہونے سے پہلے ہی میں بیدارہوکرتیارہوگیاتھا۔ مبارکہ کوجگایا۔ اس کے تیار ہونے تک تہجد کی اذان شروع ہوگئی۔ ہم اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرتے ہوئے حرم شریف کی طرف روانہ ہوئے۔ ’’باب الملک فہد‘‘ سے گذرکرخانہ کعبہ کے سامنے کی صفوں میں تھوڑا سابائیں جانب ہوکر مجھے بیٹھنے کاموقعہ ملا۔ کل رات ’’الصفا‘‘ سے گذرتے ہوئے میں نے پلٹ کرجو منظردیکھاتھا، ا سکے عقب میں چھُپاہوا منظر اب میرے سامنے تھا۔رُکن یمانی اور رُکن شامی کے درمیان کی دیوار، میزاب الرحمت اور پورا حطیم.... میں نماز تہجد کے بعد قرآن شریف پڑھنے لگا۔ پھر دیدارِ کعبہ میں مشغول ہوگیا۔ فجر کی اذان ہوئی توسنّتیں اداکرنے کے بعد پھر تسبیح و تحمید کے ساتھ کعبہ کادیدار کرنے لگا۔ فرض نماز ادا کرنے کے بعد ہم اپنے کمرے میں آگئے۔ ناشتہ کیااور سوگئے....گیارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی تو اٹھ کر سامان پیک کیااور اسے ہوٹل کے امانت خانے میں رکھوادیا۔ پھر میں بئرزمزم لینے چلاگیا۔۱۰لٹرکا برتن بھرکرلایااور اسے بھی ہوٹل کے کاؤنٹرپررکھوادیا۔ظہرکاوقت ہونے والا تھا سو ہم دونوں حرم شریف آگئے۔ ’’باب الملک فہد‘‘سے گذر کر کعبہ کے سامنے جگہ حاصل کی۔ اس بار غلافِ کعبہ پر نظریں مرتکز کیں۔ کالے غلاف پر کالے حروف کے ابھارسے ہی پورے غلاف پر ہرجگہ کلمہ شریف تحریر تھا۔
لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ...... لیکن چونکہ یہ تحریر معمولی سے ابھارکے ساتھ تھی اس لیے عام نظر سے دیکھیں تو یہ پتہ ہی نہیں چلتاکہ غلافِ کعبہ پر جگہ جگہ کلمہ شریف تحریر ہے۔اوپر بنیرے سے چندفٹ نیچے، ایک چوڑی سنہری پٹی ہے جو کعبہ کی چاروں دیواروں تک مسلسل تھی۔ اس پٹی میں قرآنی آیات ابھری ہوئی ہیں۔ اس پٹی سے تھوڑا نیچے، ہردیوار پر دو مستطیل سنہری پٹیا ں ہیں اور ان کے دائیں، بائیں اور درمیان میں تین مختصر سی سنہری پٹیا ں ہیں جن پر آیات اور بعض صفاتِ باری درج ہیں۔ مختصر سی پٹیوں کو بالی نما خوبصورت ڈیزائن بھی کہاجاسکتاہے۔ کعبہ شریف کی ہر دیوار کے کونے پر ایک چوکور مربع سنہری پٹی بنی ہوئی ہے جو دونوں منسلک دیواروں کو تھوڑا تھوڑا ٹچ کرتی ہیں۔
۔۔۔۔نماز ظہر کے بعد ہم نے اپنے بچے کھچے سامان کو بھی سمیٹا، تھوڑی سی نیند کی۔ بیداری کے بعد باقی ساراسامان بھی امانت خانے میں رکھوادیا۔ کمرے کی چابی کاؤنٹر پر جمع کرائی کیونکہ ہمارے یہاں قیام کا مقررہ وقت پوراہوچکاتھاچنانچہ ہم نے کمرہ چھوڑدیا۔عصر کی نمازکاوقت ہونے والا تھا ۔ سو حرم شریف چلے گئے۔نماز عصر اداکرنے کے بعد مارکیٹ کی طرف چلے گئے ۔ یہاں اس سفر کی سب سے کم خرچے والی خریداری کی۔ ’’ہرمال ملے گا۲ریال میں‘‘ والے سے مزید رعائت کراکے ۵۰ریال کا چھوٹاچھوٹا سامان خریدا۔ پھر حرم شریف میں آگئے۔ ایسا کوئی سامان حرم شریف میں اندرلے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ ’’باب الفتح‘‘ کے سرکاری اہل کار نے مہربانی کی۔ ہمارا سامان اپنے پاس رکھ لیا۔
۔۔۔۔ ۔اب درکعبہ میرے سامنے تھا۔کعبہ کی باقی تین دیواروں پر بنی ہوئی پٹیوں کی ترتیب ایک جیسی ہے لیکن درِ کعبہ کی وجہ سے یہاں دو مستطیل پٹیوں کی جگہ صرف ایک مستطیل پٹی ہے البتہ بالی نماڈیزائن یہا ں بھی تین ہی ہیں۔ درِ کعبہ پرایک دیدہ زیب سنہری سی چلمن آویزاں ہے۔ اس پر قرآنی آیات درج ہیں۔ یہ چلمن بیچ میں سے تھوڑی دائیں جانب اور تھوڑی سی بائیں جانب ہٹی ہوئی ہے۔ ’’صاف چھُپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ جیسی چلمن....یہاں مغرب سے پہلے آدھ گھنٹہ تک دیدار کعبہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ مغرب کے بعد ہم لوگ ایک ہوٹل میں گئے۔وہاں کھانا کھایا، پھر تھوڑی سی چہل قدمی کی.... حرم شریف میں آنے والوں کے لئے بنائے گئے باتھ روم میں گئے۔وضو کیااور حرم شریف کے اندرچلے گئے۔ ’’باب الفتح‘‘ کے سرکاری اہل کارنے اس بار پھر کمال مہربانی اور خندہ پیشانی سے ہمارا سامان رکھ لیا۔ اب پھر وہی کعبہ کا ملتزم شریف تھااور ہم تھے.....نماز عشاء ادا کی....کعبہ کاالوداعی دیدارکیااور پھر اپنے ہوٹل میں چلے گئے۔ وہاں جاکرمبارکہ نے امانت خانے سے سامان نکلوایااور میں ٹیکسی والے کو لے آیا.... اب ہم جدّہ کی طرف جارہے تھے۔ رات پونے دس بجے تک ہم جدہ ائیرپورٹ پر پہنچ گئے۔ ۱۰بجے تک سامان بُک کرادیا۔ ہماری فلائیٹ رات ایک بجے کی تھی۔سوگذرے ہوئے بابرکت دنوں کو اور ان دنوں کے مناظراور واقعات کویادکرنے لگے.... ایسے واقعات جوہوکر گذر بھی چکے تھے لیکن جدہ ائیرپورٹ پر ہی خواب جیسے لگنے لگے تھے۔
۔۔۔۔۔۔ جہاز اڑنے لگاتو مبارکہ کی طبیعت پھر بگڑنے لگی۔ پچھلی بارتو بھوک لگنے کا مسئلہ تھالیکن اس بار تو بھوک بالکل ہی نہیں تھی۔ مبارکہ نے ’’السعودیہ‘‘ والوں کا کھانابھی نہیں کھایا۔ صرف جوس پر گذارا کیا۔ جہاز میں بہت سارے گورے سوار تھے۔ یہ سب کے سب روم میں اترنے والے تھے۔ ۲۵؍دسمبر کو کرسمس منانے کے لئے ابھی سے ویٹی کن سٹی کے لئے جانا شروع ہوگئے تھے۔ ہمارا جہاز روم کے ایئرپورٹ پرایک گھنٹے کے لئے رُکااور پھر ہم فرینکفرٹ پہنچ گئے۔ایئرپورٹ کے مراحل سے گذرکربخیر وخوبی باہر آئے۔ ٹیکسی لی اور پندرہ منٹ کے بعد ہم اپنے گھر، اپنے بچوں کے پاس پہنچ گئے۔ فاالحمدللہ علیٰ ذلک۔
۔۔۔۔۔۔ میں نے کعبہ شریف اور مسجد نبویؐ میں بارباراپنے اباجی، امی جی، داداجی، دادی جی،ناناجی، نانی جی، پرداداجی، پردادی جی، باباجی، ممانی مجیدہ، ماموں ناصر، اپنے پانچوں بچوں، چاروں بھائیوں اور چاروں بہنوں او ران کی اولادوں کے لئے نام بنام دعائیں کیں۔ ان تمام قریبی رشتہ داروں عزیزوں اور دوستوں کے لئے دعائیں کیں جنہوں نے ہمارے عمرہ پر جانے کی خبرسن کر خوشی کااظہارکاتھااور محبت کے ساتھ دعاکے لئے کہاتھا۔ سچی بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے میں نے دعائیں کی ہی نہیں، وہ تو خود بخود دل سے نکلتی رہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت بی بی ہاجرہ، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے میں گناہ گارکیادعاکرتا۔ ان کے نیک اور عظیم نقشِ قدم پر چلنے کی ہمت اور توفیق مانگتارہا۔ اپنے لئے اور مبارکہ کے لئے دعائیں کیں۔ کچھ بہت ہی پیارے لوگوں کے لئے دعائیں کیں۔
۔۔۔۔۔۔گھر واپس آجانے کے بعد صبح کے وقت معمول کے مطابق قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے ایک دن سورۃ الحج کی ایک آیت میں بِئرِ مُعَطّلۃٍ کے الفاظ پڑھے تو میں رُک گیا.... پھر اُردو ترجمہ والے قرآن مجید میں بئرکا مطلب دیکھاتو معلوم ہواکنویں کو عربی میں بئر کہتے ہیں۔ خانہ کعبہ میں اپنی بے خبری کے باعث میں ’’بئرزم زم‘‘ کو ’زم زم کا کنواں‘‘ سمجھنے کی بجائے شراباً طہوراً جیسی بئرسمجھ کر تھوڑی سی شوخی اور تھوڑے سے سرور کامزہ لیتارہا۔ اب اصل مطلب واضح ہوچکا ہے لیکن اُس بے خبری کامزہ اب بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
۔۔۔۔۔ ۔۔۔جرمنی میں جتنے عزیز اور دوست ملنے کے لئے آئے۔مکہ مدینہ کے حالات پوچھتے، عمرہ کا طریق کار معلوم کرتے۔ہمارے احوال سن کر ایسے لگتاتھاجیسے انہیں.....، انہیں تو جیسے لگتاتھاسو لگتاتھا۔ خود مجھے ایسے لگتاتھاجیسے میں وہاں کے احوال نہیں سنارہاپھر سے وہاں کی زیارتیں کررہاہوں، طواف کررہاہوں، سعی کررہاہوں، روضۂ رسولؐ پر حاضری دے رہاہوں، مقامات مقدسہ کی زیارتیں کررہاہوں، نوافل پڑھ رہاہوں، دیدار کعبہ کررہاہوں......
۔۔۔۔۔۔اور اب کہ وہاں کی یہ رُوداد مکمل کی ہے تو اس وقت اپنے دل،اپنی رُوح اور اپنے ذہن کی کیفیات ،اپنے پورے وجود کی حالت کو میں بیان ہی نہیں کر سکتا۔
’’اے اﷲ!میرے اس سفر کو اپنے گھر کا آخری سفر مت بنا۔اور
بنا دیا تو اس کے بدلے میں جنت عطا فرما۔ہم سب اپنے رب
کی طرف رجوع کرتے ہیں،توبہ کرتے ہیں،اسی کی عبادت اور
تعریف کرتے ہیں اور اس کی رحمت کے طلب گار ہیں۔اﷲ تعالیٰ
نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندہ کی مدد کی اور لشکرِ کفّار کو
تنہا شکست دی۔گناہوں سے بچنے اور نیکی کی قوت اﷲ بزرگ و برتر
ہی کی طرف سے ہے‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔طوافِ وداع کی مخصوص دعا کا ترجمہ
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen