Donnerstag, 14. Juli 2011

تیسرا عمرہ

تیسرا عمرہ

۔۔۔۔۔۔فرطِ شوق سے پونے چار بجے ہی آنکھ کھل گئی۔میں نے اچھی طرح سے غسل کیا۔ پھر مبارکہ کو جگایا.... جب ہم لوگ حرم شریف کے قریب پہنچے تہجد کی اذان ہونے لگی۔ نماز کی ادائیگی کے وقت خواتین کو آگے نہیں آنے دیاجاتا۔ سو مبارکہ رستے میں خواتین کے ایک حصے میں چلی گئی اور میں نے حطیم کے سامنے ایک جگہ منتخب کی۔ ایک بار پھر میں حطیم کے روبرو تھا۔ حطیم کی چھوٹی لیکن خوبصورت گولائی والی دیوار کے دائیں بائیں کبھی ایک جنگلہ ساسجادیاجاتاہے، کبھی اسے ہٹادیاجاتاہے۔ دائیں، بائیں اور درمیان میں بجلی کے تین بڑے سے چراغ روشن ہیں۔ نماز تہجد سے نماز فجر کے درمیانی عرصہ میں دیدار کعبہ کے ساتھ نوافل اور دعاؤں کاسلسلہ جاری رہا۔ فجر کی نماز کے بعد ہم لوگ اپنے کمرے میں واپس آگئے۔ ناشتہ کیا اور پھر بے سُدھ ہوکر سوگئے۔ پونے بارہ بجے کے قریب بیدارہوئے اور ظہر کی نماز کے لئے جانے کی تیاری کرنے لگے۔ اسی دوران ظہر کی اذان ہونے لگی۔ ہم جب حرم شریف کے قریب پہنچے نماز کی تکبیر شروع ہوگئی۔ بس پھر جہاں جگہ ملی نماز اداکرلی۔ نماز کے بعد ہم ’’باب مروہ‘‘ سے باہر کی طرف مارکیٹ میں چلے گئے۔ وہاں تھوڑی بہت خریداری کی۔ بیوی ساتھ ہو تو جتنا خرچہ بھی ہوجائے خریداری ’’تھوڑی بہت‘‘ ہی کہلاتی ہے۔ خریداری کے بعد وہیں ایک پاکستانی ہوٹل میں دوپہرکا کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد مبارکہ حرم شریف میں چلی گئی۔ میں سارے سامان سمیت اپنے ہوٹل والے کمرہ میں گیا۔ وہاں سارا سامان رکھااور پھر بھاگم بھاگ واپس حرم شریف پہنچا۔ عصر کی نماز میں ابھی پندرہ بیس منٹ کی دیر تھی۔ میں ’’باب السلام‘‘ سے اندر داخل ہوا۔ اس رستے سے خانہ کعبہ کی دو دیواریں صاف نظر آتی ہیں۔ دائیں طرف رکن شامی سے رکن عراقی تک والی دیوار اور حطیم۔ بائیں طرف ملتزم(درِ کعبہ) والی دیوار.... ساتھ ہی کونے میں حجراسود ہے۔ ملتزم کے سامنے مقام ابراہیم... ’’باب السلام‘‘ کی گذرگاہ تو بڑی برکتوں والی نکلی۔ ایک نظر میں اتنے جہان دکھادیئے۔ میں اس گذرگاہ سے صحنِ کعبہ کے قریب والی سیڑھیوں تک آیا۔ پھر وہیں بائیں جانب ایک صف میں بیٹھ گیا۔ تھوڑا سا بائیں جانب ہوکر بیٹھنے کے نتیجہ میں باقی سارے منظر تو ٹھیک دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن حجراسود کاکونہ مقام ابراہیم کی اوٹ میں آگیاتھا۔ اچانک ایک صاحب میرے آگے آکر نماز پڑھنے لگے۔ عصر کے وقت کا سورج چمک رہاتھا۔ ان صاحب کا احرام ہلکے لٹھے کاتھا۔ لٹھامیں نے احتراماً لکھ دیاہے آپ اسے تھوڑی سی موٹی ململ سمجھ لیں تو صورتحال بہتر طورپرواضح ہوسکے گی۔ کچھ احرام کے کپڑے کی باریکی اور نزاکت تھی، کچھ سورج کی کرنوں نے شوخی کی جو اُن کے احرام سے چھن چھن کر باہر آنا چاہتی تھی۔موصوف کے قیام اور رکوع تک تو پھر بھی معاملہ غنیمت تھا لیکن جب وہ سجدہ میں گئے تو کپڑے کی نزاکت اور سورج کی سامنے سے پڑتی ہوئی کرنوں کی شوخی نے عجب گل کھلادیا۔ ستم بالائے ستم سجدۂ شوق خاصا طویل ہوگیا۔ خداشاہد ہے کہ طواف سے سعی تک تمام مرحلوں میں خواتین کی موجودگی نے کبھی بھی میرے ارتکاز میں خلل پیدا نہیں کیا لیکن ان صاحب کے اس سجدہ کے منظرنے میرے دھیان کو توڑ کر مجھے کراہت آمیز بیزاری کی حد تک پہنچادیا۔ میں نے ذہن کو حضرت لوط علیہ السلام کی نافرمان قوم کے انجام کی طرف لے جانے کی کوشش کی لیکن اس میں مغرب کا جدید ’’گے کلچر‘‘ گھس آیا۔ خدا خدا کرکے ان صاحب کی نماز مکمل ہوئی اور مجھے اس اذیت سے نجات ملی۔ تب ہی مجھے خیال آیاکہ میرا احرام تولیے جیسے کپڑے کاہے اور میں نے خداکالاکھ لاکھ شکر اداکیا۔
۔۔۔۔ ۔۔اب مجھے یادآرہاہے کہ زمانۂ جاہلیت میں جب کفارمکہ طواف کعبہ کرتے تھے تو چند قبیلوں کو چھوڑ کر زیادہ تر خواتین و حضرات بالکل برہنہ ہوکر طواف کیاکرتے تھے۔ اسے آپ جہالت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اُس زمانے کے لحاظ سے اس کے دوجواز میری سمجھ میں آتے ہیں۔ ہوسکتاہے وہ لوگ یہ سمجھتے ہوں کہ خدا کی نظر تو ہمارے پاتال تک جاتی ہے اور جب ہم عبادت کے ارفع ترین مقام پر آئے ہیں تو خداکے سامنے کسی ظاہری لبا س کی ضرورت نہیں ہے۔جیسے اس نے ہمیں اس دنیا میں پیداکیا ویسے ہی ہم اس کی بارگاہ میں حاضر ہورہے ہیں۔ او ریہ بھی ہوسکتاہے کہ برہنہ ہوکر طواف کعبہ کرنے کی صورت میں وہ لوگ اپنی نفس کشی کا ثبوت دیتے ہوں۔ اسلام نے برہنہ ہوکر طواف کرنے کی رسم کو ختم کردیا۔ اسلام میں احرام کی اہمیت پر غور کرتاہوں تو اس کے بعض روحانی اور ثقافتی پہلو سامنے آتے ہیں۔ احرام کاایک حوالہ یہ بنتاہے کہ انسان کو کفن کی چادروں کااحساس رہے۔موت ہمارا انجام ہے۔ مرنے کے بعد کفن میں اگلے جہان جاناہے اور کچھ بھی ساتھ نہیں لے جاناہے۔ یہ احساس زندہ رہے تو معاشرے سے بہت سی برائیاں از خود ختم ہوجاتی ہیں.... احرام سے یہ تاثر بھی بنتاہے کہ ہماری اب تک کی پہلی زندگی کے سارے گناہ خدانے بخش دیئے ہیں۔ اب ہم ایک نیا جنم لے رہے ہیں اور آئندہ ہم نے گناہوں سے پاک زندگی بسرکرنی ہے.... احرام کو ارضِ حجاز کے قدیم ثقافتی حوالے سے دیکھیں تو اس کا اَن سِلا ہونا،مکمل برہنگی اور مکمل لباس کی درمیانی کڑی قرار پاتاہے۔ اسلام نے مکمل برہنگی کی ممانعت کردی لیکن مکمل لباس پہننے سے بھی روک دیا اور دونوں کے درمیان والے رستے یعنی اَن سِلے احرام کی چادروں کو پسند فرمایا۔ میں سمجھتاہوں کہ اسلام نے بشری کمزوریوں کا احساس کیاہے اور میرے جیسے گناہ گاروں کو کسی نفسانی آزمائش اور ابتلا میں ڈالے بغیر روحانی لحاظ سے خداکے ساتھ تعلق کواعلیٰ سطح تک لے جانے کاامکانی راستہ دکھادیاہے۔
نماز عصر کی ادائیگی کے بعد ہم پھر خریداری کے لئے نکل گئے۔ دوپہر کو زیادہ تر زیورات کی خریداری کی تھی۔ اب کپڑوں کی خریداری کا موسم تھا۔ مغرب کی نماز سے پہلے مجھے پھر اپنے کمرے میں سامان چھوڑنے کے لئے آناپڑا۔مبارکہ حرم شریف جاچکی تھی۔ نماز مغرب کے بعد ہمیں حجراسود کی سیدھ والی پٹی پر ملناتھامگر مغرب تک زائرین کا اتنازیادہ رش ہوگیاکہ مجھے اور مبارکہ کو ایک دوسرے تک پہنچنے میں خاصاوقت لگ گیا۔ہم پھر بذریعہ بس مسجد عائشہ کے لئے روانہ ہوئے۔ وہاں عمرہ کے لئے غسل کیا، احرام باندھا، دو نفل پڑھے، نیت عمرہ کی اور تلبیہ پڑھتے ہوئے پھر بذریعہ بس حرم شریف آگئے۔ آج مبارکہ نے اپنے والد اور میرے ماموں ناصر کی طرف سے عمرہ کرناتھااور میں نے اپنی امی جی کی طرف سے... امی جی اور ماموں ناصر میں گہری محبت تھی۔ شاید یہ اسی محبت کا اثرتھاکہ میرے اور مبارکہ کے عمرے دونوں بہن بھائی کے لئے ایک ہی وقت میں ہورہے تھے، حالانکہ ہم نے اس سلسلے میں پہلے سے کچھ بھی طے نہیں کیاتھا۔
۔۔۔۔۔ ۔طواف اور سعی کے دوران امی جی شدت سے یادآتی رہیں۔ میں ایک عرصہ تک یہی سمجھتارہاہوں کہ دنیا کی ساری مائیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ لیکن دنیاکو دھیان سے دیکھاتو لوگو ں کی ناگنوں اور ڈائنوں جیسی مائیں بھی دیکھیں۔ اپنی اولاد کے گھروں کو خود اجاڑ دینے والی مائیں، بہو دشمنی میں بیٹوں کی زندگی میں زہر گھول دینے والی مائیں اور حرص وہوس کی ماری، ممتاکے نور سے عاری مائیں۔ جب سے میں نے لوگوں کی ایسی مائیں دیکھی ہیں اپنی والدہ مرحومہ سے میری محبت کا تعلق اور بھی گہرا ہوگیاہے۔ ایسی مائیں بہت کم ہوتی ہیں جو اپنے جذبوں، اپنی خوشیوں اور اپنی خواہشوں کی خاموشی کے ساتھ قربانی دیتی چلی جائیں اور اولاد کو کبھی اشارتاً بھی اس کا احساس نہ دلائیں۔ مجھے ایک طرف امی جی کی محبتوں اور دعاؤں کی پھوار بھگورہی تھی تو دوسری طرف بی بی ہاجرہ کی عظیم ہستی شفقت کے بادل کی طرح میری روح پر چھائی ہوئی تھی۔ طواف اور سعی سے فارغ ہونے کے بعد میں نے مبارکہ کو بتایاکہ حطیم میں ہم پہلے بھی نوافل اداکرچکے ہیں لیکن آج ہم ایک سنّت پر عمل کرنے کا ثواب بھی حاصل کریں گے پھر میں نے اسے بتایاکہ ایک بار حضرت عائشہؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھناچاہتی ہیں تب حضور ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کا ہاتھ پکڑا اور انہیں حطیم میں لاتے ہوئے ارشاد فرمایایہاں نماز پڑھ لیں کیونکہ حطیم بھی کعبہ کا حصہ ہے۔ یہ بات کہہ کر حضورؐ نے پھر ارشاد فرمایا: نیا نیا ایمان لانے کے باعث اگر مجھے اپنی قوم کے ابتلاکاڈرنہ ہوتاتو میں کعبہ کی عمارت کو گراکے پھر سے ابراہیمی بنیادوں پر تعمیرکراتا۔ یہ بتاکر میں نے سنتِ رسولؐ کی پیروی میں مبارکہ کا ہاتھ پکڑا اور اسی طرح اسے لے کر حطیم میں داخل ہوا۔ یہاں ہم نے نوافل اداکئے۔ خدا کے احسانات کی شکرگذاری کی، دلی دعائیں کیں حطیم والی طرف خانہ کعبہ کی جو دیوار ہے اس سے بہت سارے لوگ چمٹے ہوئے تھے۔ یکایک مجھ پر منکشف ہواکہ۔۔۔ یہ سامنے والی دیوار توصرف ظاہری پردہ ہے وگرنہ میں جو حطیم میں بیٹھاہواہوں در حقیقت خانہ کعبہ کے اندر ہی بیٹھا ہواہوں۔ عجیب لذّت آفریں اسرار تھا کہ میں بیک وقت کعبہ کے اندر بھی تھا اور باہر بھی۔ یہ داخلیت اور خارجیت کی بحث تو بس ایسے ہی ہے۔ اس انوکھے تجربے نے مجھے احساس دلایاکہ ہمارا باہر بھی ہمارے اندرکا ایک حصہ ہے۔ لیکن پھر اسی بھید کاایک اور مرحلہ بھی مجھ پر منکشف ہوا۔
ظاہر،باطن عین ایانی، ہُوہُوپیاسنیوے ہوُ
سلطان باہوکے اس عارفانہ تجربے جیسی ہی کوئی بات تھی لیکن میرے لئے ناقابلِ بیان ہے۔
۔ ۔۔۔۔۔حطیم سے باہر آئے تو اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے مبارکہ نے کہا حضرت عائشہؓ کی حطیم میں نماز پڑھنے والی روایت سے مجھے یاد آیاہے کہ جب حجاج بن یوسف نے کعبہ کی ابراہیمی بنیادوں والی عمارت کو گراکر اسے پھر موجودہ بنیادوں پر تعمیر کرادیاتب کسی نے حجاج کو اس روایت سے آگاہ کیا۔ تب حجاج بن یوسف نے افسوس کیا اور کہاکہ مجھے پہلے سے اس کا علم ہوتا تو عبداللہ بن زبیرؓ کی تعمیر کرائی ہوئی ابراہیمی بنیادوں کو ہرگز نہیں چھیڑتا، ویسے ہی رہنے دیتا۔ مبارکہ کی اس بات کے جواب میں تب میں نے کہاکہ حجاج بن یوسف کے سامنے مسئلہ ابراہیمی بنیادوں کا تھاہی نہیں۔ ان کے سامنے تو مسئلہ یہ تھاکہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے لئے کوئی یادگارکریڈٹ رہنے دینا ہی نہیں چاہتے تھے۔ان کا مسئلہ ان کے اپنے اقتدارکے استحکام کا تھا۔ اگر حجاج بن یوسف کو حضورؐ کی روایت کااتنا ہی پاس تھاتوایک بار عمارت گرانے کے بعد دوسری باربھی گراکر ابراہیمی بنیادوں پر دوبارہ تعمیرکرالینے میں کیا پریشانی تھی؟.....
یہ میرے ذہن تاثر تھالیکن میرا دل مجھے کہہ رہاتھاکہ حجاج کی نیت کا معاملہ خداپر چھوڑو۔ یہ دیکھو کہ اگر حجاج نے ایسانہ کیاہوتاتو تم نے کعبہ کے باہر بیٹھ کر کعبہ کے اندر بیٹھنے کا روحانی تجربہ کیسے کیاہوتا
!
***

Keine Kommentare:

Kommentar veröffentlichen